سورة لقمان - آیت 32

وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جبکہ ان کی مثل سائبانوں (ف 1) کے موج ڈھانپتی ہے تو وہ اللہ کو خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے پکارتے ہیں ۔ پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو کوئی ان میں بیچ کی چال پر ہوتا ہے اور ہماری آیتوں کا انکار صرف قول کے جھوٹے ناشکری (ف 1) ہی کرتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٣] تلاطم خیز موجوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا کہ ایسے طوفان سمندر میں اکثر اٹھتے رہتے ہیں۔ اس وقت تو سب لوگ کیا مشرک اور کیا دہریئے سب ہی اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور توحید باری تعالیٰ دونوں باتیں ہی انسان کی فطرت میں موجود ہیں۔ [ ٤٤]مقتصدکےدومفہوم ہیں:۔ مقتصد ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا اصل معنی تو اعتدال پر قائم رہنے والا ہے۔ پھر اس کے مفہوم میں راہ راست پر آجانے والا بھی شامل ہے۔ یعنی وہ شخص جو اس مصیبت میں اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کو یاد رکھے اور اسے پورا کرے جیسا کہ عکرمہ بن ابو جہل کے متعلق پہلے لکھا جاچکا ہے۔ (دیکھئے سورۃ الانعام کی آیت نمبر ٤١ کا حاشیہ) دوسرا مطلب یہ ہے کہ دہریے لوگ بھی اللہ سے انکار اور اللہ کے اقرار کے درمیان کی سطح پر آجاتے ہیں۔ کٹر منکر نہیں رہتے۔ یہی حال مشرکوں کا ہوتا ہے وہ اپنے معبودوں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے بارے میں شک میں پڑجاتے ہیں۔ مشرکوں کا اپنے معبودوں پر پورا اعتقاد نہیں رہتا۔ [ ٤٥] اور جن لوگوں کی عادت ہی یہ ہو کہ خواہ ان پر انعامات کی کس قدر بارش کردی جائے۔ انہوں نے شکر ادا کرنا یا احسان مان لینا سیکھا ہی نہ ہو، ایسے لوگ خطرہ ٹل جانے کے بعد اپنے سابقہ طرز زندگی یعنی کفر، شرک یا دہریت کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔