وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور آدمیوں میں کوئی ہے کہ کھیل کی بات خریدتا ہے ، تاکہ خدا کی راہ سے بےسمجھے (ف 2) گمراہ کرے اور اسے ٹھٹھے میں اڑائے ایسوں ہی کو ذلت (ف 1) کا عذاب ہوگا
[٤]لھوالحدیث سے کیامرادہے؟گانےبجانے اور سازومضراب سے کراہیت:۔ لھوالحدیث سے مراد ہر وہ بات، شغل یا کھیل یا تفریح ہے۔ جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دے یا غافل رکھے۔ خواہ یہ شغل، گانا بجانا ہو یا دلچسپ ناول اور ڈرامے ہوں یا کلب گھروں کی تفریحات ہوں یا ٹی وی کا شغل ہو یا ڈرامے اور سینما بینی ہو۔ غرض لھوالحدیث کا اطلاق عموماً مذموم اشغال پر ہوتا ہے۔ اب اس لفظ کی تشریح مندرجہ ذیل احادیث و آثار کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے : (١) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ قرآن میں لھوالحدیث کا لفظ گانا اور موسیقی کے لئے آیا ہے۔ نیز آپ فرمایا کرتے کہ گانا بجانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس اور سبزہ اگ آتا ہے (فتاویٰ ابن باز۔ اردو ترجمہ ج ١ ص ٣١٣) (٢) حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں گاجوں، ساز و مضراب، بتوں، صلیبوں اور امر جاہلیت کو ختم کروں‘‘ (احمد بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الحدود۔ باب بیان الخمرو وعید شاربہا فصل ثالث) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’گانا بجانا کرنے والی عورتوں کو نہ بیچو، نہ خریدو اور نہ انھیں یہ کلام سکھلاؤ اور ان کی اجرت حرام ہے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب البیوع۔ باب کراہیۃ المغنیات) (٤) ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا کو، ریشم کو، شراب کو اور معازف یعنی آلات ساز و مضراب اور گانے بجانے کو حلال کرلیں گے۔ (بخاری۔ کتاب الاشربہ باب ما جاء فیمن یستحل الخمرو يسمیہ بغيراسمہ) یعنی ان چیزوں کے دوسرے نام رکھ کر انھیں جائز بنالیں گے۔ نضربن حارث کا اسلام روکنے میں کردار:۔ اور اس آیات کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو غیر موثر بنانے کے لئے جو لوگ ادھار کھائے بیٹھے تھے ان میں سے ایک نضر بن حارث بھی تھا۔ اس کا طریق کار ابو لہب سے بالکل جداگانہ تھا۔ ایک دفعہ وہ سرداران قریش سے کہنے لگا : قریشیو! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی تھے۔ سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امین تھے اب اگر وہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں تو تم کبھی انھیں شاعر کہتے ہو، کبھی کاہن، کبھی پاگل اور کبھی جادوگر کہتے ہو۔ حالانکہ وہ نہ شاعر ہیں، نہ کاہن، نہ پاگل اور نہ جادوگر ہیں۔ کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں۔ اے اہل قریش! سوچو! تم پر یہ کیسی افتاد آپڑی ہے۔ پھر اس افتاد کا جو حل نضر بن حارث نے سوچا وہ یہ تھا کہ وہ خود حیرہ گیا۔ وہاں سے بادشاہوں کے حالات اور رستم و اسفند یار کے قصے سیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں کہیں بھی جاکر اپنا پیغام سناتے، ابو لہب کی طرح نضر بن حارث بھی وہاں پہنچ کر یہ قصے سناتا پھر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام مجھ سے بہتر ہے؟ علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مائل ہونے لگتا تو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلط کردیتا کہ وہ لونڈی اسے کھلائے پلائے اور اس کی فکر کا رخ موڑ دے۔ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن ہشام۔ ٢١: ٢٧١) [ ٥] بغیر علم کی نسبت اللہ کی راہ کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور لھوالحدیث کی طرف بھی۔ پہلی صورت تو ترجمہ سے واضح ہے۔ یعنی اس کا اللہ کی راہ سے بہِکانا محض بغض و عناد اور ضد پر مبنی ہے۔ اس کے لئے اس کے پاس کوئی عملی دلیل نہیں ہے۔ اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس قدر جاہل ہے جو اللہ کی سیدھی راہ اور ہدایت جیسی قیمتی چیز کے عوض تباہ کن چیز خرید رہا ہے۔ [ ٦]ثقافتِ جاہلیہ :۔ یعنی وہ شخص گانا، بجانا، قصے کہانیاں اور رقص و سرور جیسی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کی آیات سے دور رکھنا اور ان آیات کا مذاق اڑانا چاہتا ہے۔ [ ٧] اس کے جرم اور اس کی سزا میں مناسبت یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتا ہے تو اس کو عذاب بھی ذلیل کرنے والا دیا جائے گا۔