سورة آل عمران - آیت 55

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تجھے کھینچ لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے (ف ١) تابعداروں کو قیامت کے دن تک کافروں کے اوپر رکھوں گا (یعنی وہ غالب رہیں گے) پھر میری طرف تمہیں لوٹنا ہوگا پھر جس میں تم اختلاف رکھتے ہو اس میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا (ف ٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٣۔ ا]یہود ونصاری دونوں کے سیدنا عیسیٰ پر الزام :۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دو باتوں کا وعدہ فرمایا اور انہیں یقین دلایا۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو ان کافروں کے الزامات سے پاک کرے گا اور کافروں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ دونوں ہیں۔ یہود کا الزام یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ معاذ اللہ ولدالحرام ہیں، اور عیسائیوں کا الزام یہ تھا کہ آپ فی الواقعہ مصلوب ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ان دونوں الزاموں کی مدلل اور بھرپور تردید فرما کر عیسیٰ علیہ السلام کو ان الزامات سے پاک و بری قرار دیا۔ اور دوسرا وعدہ یہ تھا کہ میں (اے عیسیٰ) تیرے تابعداروں کو تجھے نہ ماننے والے یعنی یہودیوں پر غالب رکھوں گا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والوں میں مسلمان بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یہ پیشین گوئی یوں پوری ہوئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قریباً چالیس سال بعد رومی قیصر طیطوس یہودیوں پر حملہ آور ہوا اور شہر یروشلم کو ڈھا کر تباہ کردیا۔ حتیٰ کہ بیت المقدس کو بھی مسمار کردیا۔ لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا اور بہت سے پکڑ کر ساتھ لے گیا اور انہیں غلام بنایا۔ اس دن سے یہود کی رہی سہی عزت و شوکت بھی خاک میں مل گئی جو بعد کے ادوار میں بھی بحال نہ ہوسکی۔ [٥٤] یہ اختلاف صرف یہود اور نصاریٰ میں ہی نہیں مسلمانوں میں بھی ہے۔ قرآن و حدیث کے ان واضح ارشادات کے باوجود مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ معجزات کا منکر ہے۔ یہ لوگ احادیث کو درخور اعتنا سمجھتے ہی نہیں اور قرآنی آیات کی ایسی دورازکار تاویلیں کرنے لگتے ہیں کہ ان سے عقل شرمانے لگتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات کو بھی ان لوگوں نے تختہ مشق بنایا ہے ان حواشی میں تمام معجزات پر بحث ناممکن ہے۔ البتہ جو حضرات یہ تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ میری تصانیف ’عقل پرستی اور انکار معجزات‘ اور ’آئینہ پرویزیت‘ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ موقعہ کی مناسبت سے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ پیدائش کے متعلق قرآن پاک میں دو مقامات پر سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم علیہا السلام میں تفصیلی ذکر موجود ہے۔ جن سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بن باپ معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ اب اگر بفرض محال منکرین معجزات کی بات تسلیم کرلیں اور سمجھیں کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی اللہ کے عام قانون کے مطابق ہوئی اور حضرت مریم علیہا السلام کا (نعوذ باللہ) کوئی شوہر بھی تھا تو اس پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ مسیح کی پیدائش فطری سمجھنے والوں سے چند سوالات:۔۱۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی کسی پیغمبر یا کسی دوسرے شخص کا ذکر کیا ہے تو اس کی ابنیت کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ آخر عیسیٰ علیہ السلام میں کیا اختصاص ہے کہ جہاں بھی ان کا نام آیا توابنیت کا ذکر یعنی ابن مریم علیہا السلام کا لاحقہ ضروری سمجھا گیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نسب کے بارے میں فرماتے ہیں ﴿ اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗیِٕہِمْ﴾یعنی ہر شخص کو اس کے باپ کے نام سے منسوب کیا کرو۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا واقعی کوئی باپ تھا تو اللہ تعالیٰ کو اپنے مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق اس کا نام لینا چاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مقام پر عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہی کا کیوں نام لے کر انہیں ماں سے منسوب کیا ہے۔؟ ٣۔ اس دور کے یہود نے حضرت مریم علیہا السلام پر زنا کی تہمت لگائی۔ اگر انہیں حضرت مریم علیہا السلام کا کوئی شوہر معلوم تھا تو تہمت لگانے کی کیا تک تھی۔ پھر اگر انہیں شوہر کا علم نہ ہوسکا تو آج کل کے لوگوں کو کیسے علم ہوگیا ؟ ٤۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی عام لوگوں کی طرح فطری طور پر ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ کو متعدد مقامات پر آپ کی پیدائش کے متعلق تفصیلات دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ تعالیٰ یہود کو یہ جواب نہ دے سکتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تو فلاں ہے۔ پھر تم کیسے تہمت لگا رہے ہو اور یہ مضمون صرف ایک جملہ یا آیت میں ادا ہوسکتا تھا۔ ٥۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق سورۃ مریم کی آیت ٢١ میں ﴿اٰیَۃً لِّلنَّاسِ﴾فرمایا اور سورۃ مومنون کی آیت نمبر ٥٠ میں حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ دونوں کو ﴿اٰیَۃً لِّلنَّاسِ﴾فرمایا۔ اگر حضرت عیسیٰ عام دستور کے مطابق ہی پیدا ہوئے تھے تو وہ خود اور ان کی ماں لوگوں کے لیے نشانی کیسے بن گئے؟۔ ٦۔ اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش عام دستور کے مطابق ہوئی تھی تو حضرت مریم علیہا السلام اکیلی دور دراز مقام میں کیوں چلی گئی تھیں اور بچہ کی پیدائش کے وقت اپنے مرنے کی آرزو کیوں کی تھی؟ رفع عیسیٰ علیہ السلام پر دلائل:۔ اب آپ رفع عیسیٰ کے متعلق غور فرمائیے۔ منکرین کا سارا زور لفظ ﴿توفی﴾ پر ہوتا ہے جس کے لغوی معنی پورے کا پورا وصول کرلینا۔ اس لفظ کو قرآن ہی نے نیند اور موت کے موقع پر قبض روح کے لیے استعمال کیا۔ حالانکہ نیند کی حالت میں پوری روح قبض نہیں ہوتی بلکہ جسم میں بھی ہوتی ہے۔ پھر اگر اس لفظ کو روح اور بدن دونوں کو وصول کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو لغوی لحاظ سے یہ معنی اور بھی زیادہ درست ہے ﴿ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾ کے الفاظ اس معنی کی تائید مزید کرتے ہیں اور دوسرے مقام پر تو اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں فرمایا ﴿وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ﴾ (٤: ١٥٧) اس آیت میں آپ کی زندگی اور رفع پر تین دلائل دیئے گئے ہیں۔ ١۔ یہ یقینی بات ہے کہ یہود عیسیٰ علیہ السلام کو مار نہ سکے۔ ٢۔ پھر مزید صراحت یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ ٣۔ بعد میں ﴿وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِـیْمًا ﴾ کہہ کر یہ وضاحت فرما دی کہ یہ رفع روح مع الجسد تھا ورنہ یہاں لفظ ﴿عَزِیْزا﴾ لانے کی کوئی تک نہیں کیونکہ رفع روح تو ہر نیک و بد کا ہوتا ہے اور رفع درجات ہر صالح آدمی کا۔ لہٰذا لازماً روح مع الجسد کا رفع ہی ہوسکتا ہے۔ معجزات سے انکار کی وجہ: ۔واضح رہے کہ شریعت کے مسلمہ امور کو تسلیم کرنے میں دو چیزیں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ (١) فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریات سے مرعوبیت اور (٢) اتباع ہوائے نفس۔ منکرین معجزات خارق عادت امور کا انکار اور پھر ان کی تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ یہ موجودہ زمانہ کے مادی معیاروں پر پوری نہیں اترتیں۔ لہٰذا سب عقل پرستوں نے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش۔ ان کے دیگر سب معجزات اور آسمانوں پر اٹھائے جانے کی تاویل کر ڈالی۔ البتہ ان میں مرزا غلام احمد قادیانی متنبی منفرد ہیں جو باقی سب معجزات کے تو قائل ہیں۔ البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنے کے منکر ہیں وہ اس لیے کہ اس نے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اگر یہ رفع عیسیٰ کو تسلیم کرلیتے تو ان کی اپنی بات نہیں بنتی تھی۔ گویا یہ کام اس نے دوسری وجہ یعنی اتباع ہوائے نفس کے تحت سرانجام دیا ہے۔