وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور انہوں نے (یعنی کافروں نے) فریب کیا اور اللہ نے بھی وٹو کیا ، اور اللہ تعالیٰ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔
[٥٣] یہود اور ان کے علماء و فقہاء سب کے سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بن گئے تھے مگر آپ کے دلائل کے سامنے انہیں مجبوراً خاموش ہونا پڑتا تھا۔ پھر جب آپ نے سبت کے احکام میں تخفیف کا اعلان کیا تو یہود کو پروپیگنڈا کے لیے ایک نیا میدان ہاتھ آگیا کہ یہ شخص ملحد ہے اور تورات میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ملک شام کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا ہوا تھا اور یہاں یہود کی حکومت نہ تھی بلکہ رومیوں کی حکومت تھی۔ آپ اپنے حواریوں کو ساتھ لے کر شام کے مختلف شہروں میں تبلیغ فرماتے اور معجزہ دکھلاتے جس سے لا تعداد شفایاب بھی ہوجاتے تھے اور آپ پر ایمان بھی لے آتے تھے۔ ہر شہر میں سینکڑوں مرد اور عورتیں آپ پر ایمان لے آئے تو یہودیوں کے بغض اور حسد میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور وہ آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری:۔ آپ کے حواریوں میں سے ہی ایک شخص نے یہود سے بہت سی رقم بطور رشوت وصول کرکے یہ مخبری کردی کہ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام فلاں پہاڑی پر مقیم ہیں۔ چنانچہ یہود کی ایک مسلح جماعت اس پہاڑی پر پہنچ گئی اور آپ کو گرفتار کرلیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر آپ کے حواری سب تتر بتر ہوگئے۔ ان کے پاس صرف دو تلواریں تھیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ حواری ایک مسلح جماعت کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے اور میں تمہیں اپنی طرف زندہ اٹھا لوں گا۔ سیدنا عیسیٰ کوسولی کی سزا دلوانے میں یہودی علماء کا کردار:۔ قیصر روم کی طرف سے جو حاکم شام پر مقرر تھا۔ اس کا نام ہیروڈیس تھا۔ یہودیوں نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرلیا تو آپ کے منہ پر طمانچے مارے اور مذاق اڑاتے ہوئے شہر میں لے گئے۔ پھر آپ کو ہیرو ڈیس کے نائب حاکم پلاطوس کے پاس لے گئے اور آپ پر دو الزام لگا کر پلاطوس سے آپ کے قتل کا مطالبہ کیا۔ ایک الزام یہ تھا کہ یہ شخص قیصر روم کو محصول دینے سے منع کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ خود اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتا ہے لیکن آپ نے ان دو الزاموں سے انکار کردیا تو پلاطوس کہنے لگا کہ میرے نزدیک اس کا کوئی ایسا جرم نہیں جو مستوجب قتل ہو۔ مگر جب اس نے یہودیوں کا اپنے مطالبہ پر اصرار دیکھا تو اس نے یہ مقدمہ ہیروڈویس کے پاس بھیج دیا۔ لیکن اسے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی ایسا جرم نظر نہ آیا جو مستوجب قتل ہو۔ لہٰذا اس نے یہ مقدمہ واپس پلاطوس کے پاس بھیج دیا۔ لیکن یہود کے علماء و فقہاء سب اسی بات پر بضد تھے کہ اس شخص کو ملحد ہونے اور دوسروں کو ملحد بنانے کی بنا پر قتل کرنا ضروری ہے۔ پلاطوس نے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور ضد سے مجبور ہو کر کہا کہ میں تمہارے کہنے پر اسے سولی تو دے دیتا ہوں مگر اس کا گناہ تم پر اور تمہاری اولاد پر ہوگا۔ یہود نے ضد میں آکر اس بات کو بھی تسلیم کرلیا۔ مصلوب کون تھا؟ پھر جب آپ کو سولی پر چڑھانے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ حرکت میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں کی طرف اٹھا لے گئے اور کسی دوسرے شخص کی شکل و صورت اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام سے ملتی جلتی بنا دی اور سب کو یہی معلوم ہونے لگا کہ یہی شخص عیسیٰ ہے۔ قرآن کریم نے اس مقام پر ﴿وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ﴾کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ دوسرا شخص کون تھا ؟ تو اس کے متعلق ایک قول تو یہ ہے کہ یہ وہی شخص تھا جو آپ کو سولی کی سزا دلوانے میں سب سے پیش پیش تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سب سے بڑے دشمن کو اس کی کرتوت کی سزا سولی کی شکل میں دے دی۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ شخص وہی حواری تھا جس نے بھاری رشوت لے کر آپ کی مخبری کرکے آپ کو گرفتار کروایا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعض لوگوں نے اس شبہ کی اور بھی کچھ صورتیں ذکر کی ہیں۔ تاہم ان سب کا ماحصل یہی ہے کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور آپ کی جگہ مصلوب کوئی دوسرا مشتبہ شخص ہوا تھا۔ سیدناعیسیٰ کے مصلوب ہونےسے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ:۔ یہ تو تھی قرآن کی وضاحت لیکن اناجیل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ عیسائی یہ کہتے ہیں کہ سولی آپ ہی کو دی گئی تھی اور آپ نے چیخ چیخ کر جان دی۔ پھر یوسف نامی ایک شخص نے پلاطوس سے درخواست کی کہ لاش اس کے حوالے کردی جائے۔ چنانچہ اس نے آپ کو قبر میں دفنا دیا اور اوپر چٹان دھر دی، یہ جمعہ کی شام کا واقعہ تھا۔ پھر تین دن بعد اتوار کو حضرت عیسیٰ زندہ ہو کر لوگوں کو دکھائی دیئے۔ پھر آسمان پر چڑھ گئے اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ٣٣ سال کی تھی۔ اناجیل کے اسی بیان پر عیسائیوں کے مشہور و معروف عقیدہ کفارہ مسیح کی عمارت کھڑی کی گئی۔ انجیل برنباس کا تعارف:۔ اناجیل کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے سے متعلق بیان کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔ مثلاً ( : ١) اناجیل اربعہ کے مؤلفین میں سے کوئی بھی موقعہ کا عینی شاہد نہیں۔ حتیٰ کہ یہ اناجیل دوسری صدی عیسوی میں مرتب ہوئیں۔ یہ مؤلفین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے شاگرد در شاگرد ہیں اور صلیب کے موقعہ پر ایک بھی حواری موجود نہ تھا۔ سب تتر بتر ہوگئے تھے۔ (٢) انجیل برنباس کا مؤلف برنباس حواری ہے اور یہ انجیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے صدہاسال پیشتر عیسائیوں میں مشہور و معروف تھی۔ اس میں یہ عبارت موجود ہے ’’تب فرشتوں نے باکرہ سے کہا کیونکہ یہودا عیسیٰ کی شکل میں مبدل ہوگیا‘‘ اور یہ یہودا وہی حواری ہے۔ جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخبری کی تھی۔ یہ انجیل برنباس چونکہ عیسائیوں کے تمام مشہور و معروف عقاید یعنی الوہیت مسیح، عقیدہ تثلیث اور کفارہ مسیح کی تردید کرتی ہے۔ لہٰذا اہل کلیسا نے اس انجیل کو الہامی کتابوں کے زمرہ سے خارج کردیا ہے اور اسے ضبط کرلیا گیا۔ تاہم یہ کتاب آج بھی دنیا سے ناپید نہیں ہوئی۔ (٣) اسلام سے پیشتر عیسائیوں کے کئی فرقے ایسے موجود تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کے منکر تھے۔ مثلاً فرقہ باسلیدی، سربنتی، کاریو کراتی، ناصری، پوئی وغیرہ۔ لہٰذا عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کا عقیدہ متفق علیہ ہے۔ غلط ثابت ہوتا ہے۔ نزول مسیح :۔ بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب دمشق کی مسجد کے سفید منارہ پر نزول فرمائیں گے۔ ان کے ایک طرف جبرائیل ہوں گے اور دوسری طرف میکائیل، اس وقت مسلمان کئی طرح کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے جن میں سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا۔ آپ دجال کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کی امداد فرمائیں گے۔ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائیں گے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بن کے رہیں گے اسی زمانہ میں آپ شادی کریں گے اولاد ہوگی آپ کے دور میں اسلام کا بول بالا ہوگا، اور بعدہ آپ اپنی طبعی موت مریں گے۔ اس دوران آپ یہود کو چن چن کر ماریں گے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہوگا تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ یہاں ایک یہودی موجود ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کا مابعد والی آیت میں ذکر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نزول عیسیٰ کے متعلق حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو﴿ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ﴾ اہل کتاب میں سے کوئی نہ رہے گا مگر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ضرور ایمان لائے گا۔