أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ
کیا انہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے اس کو ٹھیک سادت کر اور مدت مقرر (ف 1) کے لئے پیدا کیا ہے ! اور بہت لوگ اپنے رب کی ملاقات سے منکر ہیں
[٤]انسان کن کن باتوں میں دوسرے جانداروں سےممتازہے: انسان کے اندر بھی ایک پوری کائنات آباد ہے۔ اسی لئے انسان کے اندر کی دنیا عالم اصغر کہا جاتا ہے۔ اور بیرونی دنیا یا کائنات کو عالم اکبر۔ پھر اس اندرونی دنیا کے بھی بے شمار پہلو ہیں۔ ہم سردست انسان کے اس پہلو پر غور کریں گے جس میں وہ دوسرے جانوروں سے ممتاز ہے۔ مفاد خویش، تحفظ خویش اور بقائے نسل وغیرہ ایسے طبعی تقاضے ہیں جو ہر جاندار اور اسی طرح انسان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور جن باتوں میں وہ ممتاز ہے وہ یہ ہیں (١) زمین اور اس کے ماحول میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہیں۔ اور وہ ان سے جیسے چاہے کام لے سکتا ہے اور یہ صفت انسان کے علاوہ دوسرے کسی جاندار میں نہیں (٢) اسے خیر اور شر کی تمیز بخشی گئی ہے۔ وہ اپنے ہی کئے ہوئے کاموں پر حکم لگا سکتا ہے کہ میں نے فلاں اچھا کام کیا ہے اور فلاں کام برا تھا۔ یہ بات کافی حد تک اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ پھر اسے وحی کے ذریعہ متنبہ بھی کیا جاتا رہا ہے (٣) اسے قوت ارادہ و اختیار بھی بخشا ہے اور وہ اپنے لئے اچھا یا برا، کوئی بھی طرز زندگی اپنانے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے فطری داعیہ کے علی الرغم کسی جذبہ کے تحت اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور (٤) اسے عقل و شعور کا وافر حصہ عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ چند معلوم اور دیکھی ہوئی اشیاء سے مزید کچھ حقائق اور نتائج کا سراغ لگانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اصطلاحی زبان میں علت (Cause) اور معلول (effect) سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ مشاہدات کو دیکھ کر اس کی علت بھی معلوم کرنا چاہتا ہے اور اس سے آگے معلول بھی۔ انسان کےامتحان کا پوراوقت اس کی موت ہے۔یہ وہ اللہ کے عطیات ہیں جو انسان کے علاوہ کسی جاندار کو عطا نہیں کئے گئے اور ان کے عطا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ ان امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے جس میں اسے اختیار دیا گیا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ وہ طبعی امور میں اللہ کے قوانین و احکام کا پابند ہے۔ گویا یہ دنیا صرف انسان کے لئے دارالامتحان ہے اور کسی جاندار کے لئے نہیں۔ اور اس امتحان کا وقت اس کی موت تک ہے۔ موت دراصل اس کے امتحان کے نتیجہ کے امکان کا دن ہے۔ رزلٹ کااعلان موت کا دن ہےا ور اسی وقت سے جزا وسزا شروع ہوجاتی ہے :۔ اور موت کے فوراً بعد پاس ہونے والوں کو انعام و اکرام دیئے جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور فیل ہونے کو اپنے اپنے رزلٹ کے حساب سے سخت اور سخت تر سزائیں دی جائیں گی۔ اسی حقیقت سے عالم آخرت کے یقینی طور پر واقع ہونے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ کسی شخص کا امتحان تو لیا جائے لیکن اس کے نتیجہ کا اعلان ہی نہ کیا جائے یا اعلان کے بعد ان پاس ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور نہ فیل ہونے والوں کو کچھ سزا دی جائے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ امتحان کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کو سزا دے ڈالی جائے۔ لہٰذا جزا و سزا کا اصل مقام دارالآخرت ہے نہ کہ یہ دنیا۔ اور اس دنیا میں جو بعض افراد یا اقوام پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے تو وہ محض مجرموں کی گرفتاری ہوتی ہے پوری سزائے جرم نہیں ہوتی۔ تاکہ دوسرے لوگ ایسے مجرموں کے مظالم سے محفوظ رہ سکیں اور آئندہ کے لئے ان کے مظالم کا سلسلہ بند ہوجائے۔ اخروی زندگی کیوں ضروری ہے:۔ گویا انسان کے اندر کی دنیا کے اس پہلو پر بھی غور کرنے سے یہی نتیجہ سامنے آیا ہے۔ کہ انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا ملنا ضروری ہے۔ اور نیز یہ کہ یہ سزا موت کے بعد ہی ہوسکتی ہے لہٰذا روز آخرت کا قیام ضروری ہوا۔ اب جو لوگ انسان کے اعمال کی جزا و سزا اور روز آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر تمہیں یہ زائد عطیات کیوں عطا کئے گئے تھے؟ اگر دنیا میں رہنے کا مقصد کھانا پینا، بقائے نسل اور اس کے بعد مر کر مٹی ہوجانا ہی تھا تو یہ کام تو دوسرے جاندار بھی کر رہے ہیں۔ پھر تم میں اور ان میں کیا امتیاز باقی رہ گیا ؟ بلکہ ایک لحاظ سے ایسا انسان جانوروں سے بدتر ہوا۔ کہ اللہ نے اسے جو دوسرے جانوروں سے زائد صلاحیتیں عطا کی تھیں ان سے اس نے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ [ ٥]کائنات میں نظم وضبط سے ہی ایجادات ہوتی ہے اور تمدن کوفروغ ملتاہے:۔ بالحق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی جملہ اشیاء کے ذمہ جو کام لگا دیا ہے اور اس کے لئے جو قوانین مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان پر سختی سے پابند ہیں کہ نہ وہ ایک لمحہ آگے پیچھے ہوسکتی ہیں اور نہ ایک آدھ انچ بھی ہٹ سکتی ہیں۔ مثلاً سورج کے ایک دن طلوع ہونے سے دوسرے دن طلوع ہونے تک ٢٤ گھنٹے لگتے ہیں۔ سورج کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اس وقت میں ایک لمحہ کی بھی تقدیم و تاخیر کرے۔ پانی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی وقت نشیب کے بجائے فراز کی طرف بہنا شروع کرے یا سطح ہموار نہ رکھے یا ١٠٠ درجہ سنٹی گریڈ سے پہلے ہی کھولنا شروع ہوجائے ، نہ آگ کے لئے ممکن ہے کہ وہ اشیاء کو جلانا چھوڑ دے۔ یا گرمی سے اشیاء پھیلنا اور سردی سے سکڑنا چھوڑ دیں۔ یہی وہ قوانین ہیں جن میں نظم و ضبط کی بنا پر انسان نت نئی ایجادات کو ظہور میں لانے کے قابل ہوسکتا ہے بلکہ تھوڑا سا آگے غور و فکر کیا جائے کہ اگر اشیائے کائنات میں یہ نظم و ضبط نہ ہوتا تو انسان اس دنیا پر زندہ بھی نہ رہ سکتا تھا۔ توحید، انسانی زندگی کےمقصداورروزآخرت پردلائل:۔ جس سے صاف واضح ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز بے شمار فوائد اور مصالح کی بنا پر بنائی گئی ہے یہ محض کس بچے کا کھیل نہیں کہ جس نے اپنا دل بہلانے کے لئے ایک گھروندا بنا لیا ہو اور جب اس کا جی اکتا جائے تو اس پر ہاتھ پھیر کر اسے مٹا ڈالے۔ بلکہ یہ کسی حکیم مطلق کی ایک سوچی سمجھی تدبیر اور کارنامہ ہے۔ جس سے ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ایسے منظم و مربوط کارخانہ کا خالق و مالک ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی ایجادات اور تسخیر کائنات کا راز اسی بات میں ہے۔ کائنات کی جملہ اشیاء طبعی قوانین کی پابند ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی نہ علوم سائنس کا تصور کیا جاسکتا تھا اور نہ انسانی تہذیب و تمدن کا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف کائنات کی بنیاد ٹھوس حقائق پر مبنی ہے، دوسری طرف انسان کو وہ صلاحیتیں دی گئی ہیں جو کسی اور جاندار کو نہیں دی گئیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔ ان باتوں کے باوجود یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور وہ جیسے چاہے اس دنیا میں زندگی گزار کر، عیش و عشرت کے مزے اڑا کر اور دوسروں پر ظلم کرکے اور ان کے حقوق پامال کرکے دنیا سے رخصت ہوجائے اور پھر مٹی میں مل کر مٹی بن جائے اور اس سے کوئی باز پرس تک کرنے والا نہ ہو۔ گویا اس آیت میں توحید باری پر، انسان کی زندگی کے مقصد پر اور روز آخرت پر قوی دلائل اور شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔ [ ٦] آخرت پرتیسری دلیل:۔قیامت اور عالم آخرت پر یہ تیسری دلیل ہے۔ ہر چیز جو پیدا ہوئی ہے یا اصطلاحی زبان میں حادِث ہے وہ فنا ضرور ہوگی۔ کائنات کا یہ مربوط پائیدار نظام دیکھ کر انسان یہی سوچتا ہے کہ تا ابد یہ نظام یونہی چلتا جائے گا۔ اصل چیز مادہ ہے جو ازلی ابدی ہے۔ مادہ صرف اپنی شکلیں بدلتا ہے، فنا نہیں ہوتا یہی دہریہ حضرات کے عقیدہ کی اصل بنیاد ہے۔ لیکن موجودہ دور کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مادہ کبھی بھی فنا ہوسکتا ہے اور اسے توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایٹم کے اجزاء الیکٹرون اور پروٹون کا نظام درہم برہم کرکے اسے توانائی میں تبدیل کرلیا جاتا ہے پھر توانائی بھی مادہ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے سوا نہ کوئی چیز ازلی ہے اور نہ ابدی۔ اور ہر چیز فنا ہوسکتی ہے۔ جب یہ بات سائنس کے ذریعہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے تو اب اس کائنات کے نظام کے درہم برہم ہونے اور قیامت قائم ہونے میں کیا استحالہ باقی رہ جاتا ہے؟ رہی یہ بات کہ اس کائنات کا یہ موجودہ نظام کب درہم برہم ہوگا اور کب قیامت قائم ہوگی اور یہ بات صرف خالق کائنات ہی جان سکتا ہے اور یہ بات معلوم کرلینا انسان کی دسترس سے باہر ہے۔