قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ۖ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
تو کہہ میرے اور تمہارے درمیان خدا کافی گواہ ہے ۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ وہ جانتا ہے اور جو باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا انکار کرتے ہیں وہی سب زیادہ زیاں کار ہیں
[٨٤] کفار مکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے خالق ومالک ہونے کی صفات کے قائل تھے۔ لہٰذا ان سے یہ کہا گیا کہ آپ ان سے کہیئے اگر میں رسالت کا دعویٰ کرکے اس پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کر رہا ہوں تو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ مجھے ہلاک کردیتا مگر عملاً یہ ہو رہا ہے کہ وہ روز بروز مجھے اور میرے ساتھیوں کو بڑھا رہا ہے۔ پھر مجھے معجزہ بھی دیا ہے۔ جس کا جواب پیش کرنے سے تم عاجز ہو تو کیا میری رسالت پر اللہ کی یہ گواہی کافی نہیں؟ ہاں کوئی شخص اگر یہ تہیہ کرلے کہ وہ حق بات کبھی نہ مانے گا تو وہ اور بات ہے اور یہی انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور اس کے حق میں نقصان دہ بات ہے۔