قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ
(شرکاء) جن پر بات پوری ہوگئی یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہکایا تھا جیسے ہم گمراہ تھے ویسے ہی ہم نے انہیں بھی گمراہ کیا تھا ۔ ہم تیرے آگے ان سے دست بردار ہوتے ہیں وہ فی الحقیقت ہم کو نہ پوجتے تھے بلکہ اپنی خواہشوں (ف 2) کو
[٨٦] اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہیں جن کی کسی نہ کسی رنگ میں دنیا میں عبادت کی جاتی رہی ہے۔ یہاں عبادت سے مراد محض پوجا پاٹ نہیں بلکہ بندگی اور غلامی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو چاہتے تھے کہ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں ان کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ خواہ یہ دنیوی حکام ہوں یا پیرو مشائخ کی قسم کے لوگ ہوں۔ [٨٧] عابدومعبوددونوں اپنی خواہش کے پیروکار تھے اور معبودوں کا جواب:یعنی سوال تو اللہ مشرکوں سے کرے گا کہ تم نے جو میرے مقابل شریک بنا رکھے تھے وہ کہاں ہیں۔ لیکن وہ مشرک تو ابھی کچھ جواب نہ دینے پائیں گے کہ اس سے پیشتر یہ معبود حضرات خود ہی بول اٹھیں گے اور کہیں گے کہ پروردگار! واقعی ہم ان لوگوں کی گمراہی کا سبب ضرور بنے تھے۔ مگر ہم نے انھیں زبردستی اس بات پر مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ لوگ بھی ایسے ہی گمراہ ہوئے جیسے ہم خود ہوئے تھے۔ ہمیں بھی ہماری خواہشات نفس کی پیروی نے گمراہ کیا تھا۔ اور انھیں بھی اسی بات میں اپنے مفاد نظر آئے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ اگر یہ ہدایت کی راہ اختیار کرنے والے ہوتے تو ہماری ان پر کچھ زبردستی نہیں تھی۔ لہٰذا یہ لوگ ہرگز ہماری بندگی نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہشات کی بندگی کر رہے تھے ہم بھی یہی کچھ کرتے رہے اور یہ بھی وہی کچھ کرتے رہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور تھا ؟