نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم تجھے ایمان دار لوگوں کے لئے موسیٰ اور فرعون کے سچے حالات سناتے ہیں
[١]قرآن میں اکثرمقامات پرقصص الانبیاء کےضمن میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکرپہلے کیوں آیاہے ؟ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور انبیاء کے ذکر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شدید حالات میں فریضہ رسالت سرانجام دینے کا حکم ہوا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جس قوم بنی اسرائیل کے فرد تھے، فرعون نے انھیں اچھوتوں کی طرح کم تر درجہ کی مخلوق اور عملاً غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم قریش ہی کے ایک فرد تھے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے مغرور، متمرد اور سرکش، فوراً بھڑک اٹھنے والے فرمانروا کے ہاں دعوت رسالت کے لئے بھیجا گیا تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہی قوم کے افراد تھے۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بھی حکم تھا کہ دعوت توحید کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کی رہائی کا بھی مطالبہ کریں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کوئی حکم نہ تھا۔ چوتھے یہ کہ آپ فرعون کے اشتہاری مجرم تھے۔ اور اس قصہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی مدد کرکے انھیں فرعونیوں سے نجات دلاتے ہیں اور فرعون اور آل فرعون کو دریا میں غرق کرکے ایسے ظالموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیتے ہیں۔ گویا اس قصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور مسلمانوں کے لئے سبق یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے ایسے شدید حالات اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے سب مصائب برداشت کئے تو آپ کو بھی کرنا چاہئیں اور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر اپنے پیغمبر اور ایمان لانے والوں کو ہی کامیاب کرتا ہے اور ان کے دشمن تباہ ہوجاتے ہیں۔ [٢]فرعون کا لقب اور زمانہ :۔ شاہان مصر کا لقب، جیسے قدیم زمانہ میں ترکوں کے بادشاہ خاقان، یمن کے بادشاہ تبع، حبشہ کے بادشاہ نجاشی، روم کے بادشاہ قیصر اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کہلاتے تھے ایسے ہی مصر کے بادشاہ فرعون کہلاتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو دو فرعونوں یا دو بادشاہوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جس فرعون نے آپ کی پرورش کی تھی اس کا نام رعمسیس تھا اور نبوت ملنے کے بعد جس کے ہاں آپ کو بھیجا گیا تھا وہ رعمسیس کا بیٹا منفتاح تھا ۔ ان کا عہد حکومت تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح ہے۔ [٣] یعنی قرآن کا یہ قصہ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور متکبروں کا آخر کیا انجام ہوتا ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں کا کیا ؟ لیکن اس قصہ سے نصیحت، ہدایت اور سبق وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو ان واقعات کو درست تسلیم کرکے اور ان میں غور و فکر کرکے ایمان لانے والے ہوں اور جو لوگ اسے محض تاریخی داستان یا افسانہ سمجھتے ہوں، انھیں اس سے کیا عبرت حاصل ہوسکتی ہے؟