قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میرے تابع ہوجاؤ اللہ تم سے محبت رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا ، اور اللہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف ١)
[٣٣]اتباع سنت کی اہمیت اور بدعت کارد:۔ اس آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اہل کتاب، کفار و مشرکین اور عامۃ الناس ہیں کیونکہ تقریباً سب کے سب اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتے اور اس کا دم بھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو پھر اس کی صورت صرف یہی ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے لگ جاؤ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چہ جائیکہ تم اللہ سے محبت رکھو۔ اللہ تعالیٰ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔ نیز اس آیت میں مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جس خوبصورت انداز سے اس آیت میں اتباع سنت پر زور دیا گیا ہے۔ شاید اس سے زیادہ ممکن بھی نہ تھا۔ اتباع کے مفہوم میں اطاعت کی نسبت بہت زیادہ وسعت ہے۔ اطاعت صرف اوامر و نواہی میں ہوتی ہے۔ جبکہ اتباع یہ ہے کہ جیسے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرتے دیکھو ویسے ہی تم بھی کرنے لگ جاؤ جس بات کو وہ پسند کریں اسے تم بھی پسند کرو اور جس بات سے نفرت کریں اس سے تم بھی نفرت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اور تیسرا سبق اس آیت سے یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ بدعت سنت کی عین ضد ہے اور بدعت کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا نیا کام دین میں شامل کرنا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو نیز وہ کام آپ کے بعد دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر بجا لایا جائے وہ مردود ہے اور بدعات کو رواج دینے والا شخص تو شدید مجرم ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد بھی اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہ کا حصہ رسدی اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ شدید مجرم اس لحاظ سے بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شارع کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے وضع کردہ نئے کام کو دین کا حصہ بنا کر دین کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔