سورة الشعراء - آیت 194

عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں ہوجائے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٣] پھر یہی مبنی برحقائق آیات جبریل امین لے کر براہ راست آپ کے دل پر اس کلام کو نازل کرتے ہیں تاکہ آپ ایسے واقعات تمام لوگوں کو سنا کر نافرمانوں کو ان کے برے انجام سے بروقت متنبہ کردیں۔ وحی کےنزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت:۔ واضح رہے وحی الٰہی تین صورتیں قرآن میں مذکور ہیں سب سے معروف شکل یہ ہے کہ جبریل پیغمبر کے دل پر نازل ہو کر وحی کے الفاظ پیغمبر میں ڈال دے اس صورت میں پیغمبر رشتہ عالم دنیا سے کٹ کر عالم بالا جڑ جاتا ہے۔ وحی کے دوران پیغمبر کے حواس ظاہری کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور قلبی حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پیغمبر دل کی آنکھ سے فرشتہ کو دیکھتا ہے۔ دل کے کانوں سے وحی سنتا ہے۔ بالفاظ دیگر وحی کے دوران پیغمبر کو بشریت سے کٹ کر ملکیت کی طرف کرتا ہے۔ لہٰذا وحی کی یہ شکل جسمانی لحاظ سے آپ کے لئے نہایت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ شدید قسم کا بوجھ آپ پر پڑجاتا تھا اور حالت غیر ہوجاتی تھی اور اس بوجھ کو وہ جاندار بھی محسوس کرتے تھے جن کا جسم آپ کے جسم سے لگا ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار اور یہ وحی مجھ پر بہت سخت گزرتی ہے۔ پھر جب فرشتے کا کہا مجھ کو یاد ہوجاتا ہے تو یہ موقوف ہوجاتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ مرد کی صورت میں میرے پاس آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے میں اس کا کہا یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ سخت سردی کے دن پر آپ پر وحی اترتی پھر موقوف ہوجاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے پسینہ نکلتا‘‘ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نیز حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب یہ آیت لکھنے کو کہا : ﴿لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ﴾ اس وقت عبداللہ بن ام مکتوم( جو نابینا تھے ) نے آپ کے پاس آکر کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے جہاد کی طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد کرتا۔ اسی وقت اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ کی ران میری ران پر تھی آپ کی ران اتنی بوجھل ہوگئی کہ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ نیچے سے میری ران ٹوٹ جائے گی پھر جب وحی کی کیفیت موقوف ہوئی تو اللہ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ بھی نازل فرمایا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ نساء ) (وحی کی دوسری صورتوں کے لئے دیکھئے سورۃ شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ کا حاشیہ ) وحی کی اس قسم کو وحی جلی کہتے ہیں۔ قرآن کریم سارے کا سارا وحی جلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وحی جلی ساری کی ساری قرآن میں محصور ہے۔ ایسی ہی وحی کا تھوڑا بہت حصہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ مثلاً زنا کی سزا سے متعلق عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کہ (خذوا عنی خذوا عنی قد جعل لھن سبیلا )عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’اس وحی کے نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو قرآن کی وحی کے نزول کے وقت طاری ہوتی تھی‘‘ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الزنا )