سورة الشعراء - آیت 32

فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تب اس نے اپنی لاٹھی ڈال دی ۔ تو وہ اسی وقت صریح اژدھا بن گئی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] معجزات سے فرعون اور درباریوں کی اثرپذیری :۔ فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام سے اپنی رسالت کے ثبوت میں نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے دربار میں ہی اپنا عصا زمین پر پھینک دیا وہ دیکھتے دیکھتے بہت بڑا سانپ یا اژدہا بن کر فرعون کی طرف بڑھا۔ جس سے فرعون سخت دہشت زدہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اسے سنبھالو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اسے ہاتھ میں لینا ہی تھا کہ وہ پھر سے عصا بن گیا۔ عصا سے بننے والے سانپ کے لئے قرآن کریم میں تین لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مقام پر اسے حیہ فرمایا اور حیةکا لفظ سانپ کے لئے اسم جنس ہے جو ہر قسم کے سانپ کے لئے نیز نر و مادہ کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے مقام پر جان ّکا لفظ آیا ہے جس کا معنی پتلا، سبک رفتار اور پھرتیلا سانپ ہے اور یہاں ثعبان کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ بڑے سانپ یا اژدہا کے لئے آتا ہے۔ اب ان کی تطبیق یا تو اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا تو وہ پہلے پتلا اور پھرتیلا سا سانپ بنا ہو۔ بعد میں دیکھتے ہی دیکھتے اژدہا بن گیا ہو اور یا اس طرح کہ عصا نے شکل تو اژدہا کی اختیار کرلی ہو مگر اس میں پھرتی پتلے سانپ جیسی ہو۔