وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
اور وہی (ف 3) ہے جو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری دینے کے لئے ہوائیں بھیجتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا ۔
[٦٠] ہواؤں کی مختلف اقسام:۔ ریاح کا لفظ ریح کی جمع ہے۔ جس کا معنی محض ہوا ہے خواہ وہ چل رہی ہو یا ساکن ہو اور اگر وہ حرکت میں ہو یعنی چل رہی ہو تو عربی زبان میں ہر سمت سے چلنے والی ہوا کے لئے الگ الگ لغت ہے۔ جو ہوا شمال سے جنوب کی طرف چل رہی ہو اس ہوا کو بھی شمال ہی کہتے ہیں اور یہ عموماً بارش لاتی ہے اور جو جنوب سے شمال کو چلے اسے جنوب کہتے ہیں اور یہ عموماً بادلوں کو اڑا لے جانے والی ہوتی ہے جو مشرق سے مغرب کو عموماً صبح کے وقت چلتی ہے اسے صبا کہتے ہیں اور یہ دل کو فرحت بخشنے والی ہوتی ہے اور جو مغرب سے مشرق کو چلے اسے دبور کہتے ہیں۔ اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ عاد کی قوم اسی ہوا سے ہلاک ہوئی تھی۔ اگرچہ ریاح ریح کی جمع ہے لیکن قرآن نے ریح اور ریاح کی الگ الگ مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ریح کا لفظ عموماً عذاب دینے والی ہوا کے لئے استعمال ہوا ہے ( مثالوں کے لئے دیکھئے ۳: ١١٧، ١٤: ١٨، ٣۳: ٩، ٥٤: ١٩ وغیرہ ) اور ارسال الریح کا لفظ عموماً رحمت کی ہواؤں کے لئے آتا ہے۔ جیسے اس مقام پر بھی ہوا ہے ( نیز دیکھئے ٧: ٥٧، ١٥: ٢٢، ٣٠: ٤٦، ۳۰: ٤٨ وغیرہ ) اور باران رحمت لانے والی ہواؤں کے لئے جمع کا صیغہ غالباً اس لئے استعمال ہوا ہے کہ اس میں آبی بخارات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سورج کی یا آگ کی حرارت سے پانی کی سطح پر سے جو آبی بخارات اٹھتے ہیں ان کا خاصا صرف یہ ہے کہ وہ سیدھا اوپر کو اٹھتے ہیں اوپر اٹھ کر کوئی خاص سمت اختیار کرنا آبی بخارات کا خاصہ نہیں ہے۔ اب ان کو ہوائیں ہی کسی خاص سمت میں جس طرح اللہ کو منظور ہوتا ہے، اڑا لاتی ہیں۔ اور جس مقام پر اللہ تعالیٰ کو بارش برسانا منظور ہوتا ہے وہاں پہلے ہی ایسی پانی سے سے لدھی ہواؤں کے ٹھنڈے جھونکے آنا شروع ہوجاتے ہیں جو ایک طرف تو بارش کی آمد کی خوشخبری بتاتے ہیں دوسری طرف دلوں کو عجیب طرح کا سرور بخشتے ہیں۔ [ ٦١]بارش کے پانی کاخوشذائقہ ہونا اللہ کی ایک نشانی ہے :۔ آبی بخارات عموماً سمندر کی سطح پر سورج کی گرمی سے اوپر اٹھتے ہیں سابقہ آیات میں سایوں کا، پھر رات کے پرسکون ہونے اور دن کے وقت کام کاج کرنے کا ذکر تھا اور یہ سب باتیں سورج سے متعلق ہیں اور بارش کا سلسلہ بھی سورج ہی سے متعلق ہے۔ اسی نسبت سے ساتھ ہی اس کا بھی ذکر آگیا۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ سمندر کا پانی کڑوا اور سخت نمکین ہوتا ہے پھر اس میں کئی قسم کے کیمیائی اجزاء بھی ملے ہوتے ہیں۔ سمندر کا پانی جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو اسے چبھنے لگ جاتا ہے۔ اور جب تک سادہ اور صاف پانی سے وہ جگہ دھوئی نہ جائے چین نہیں آتا۔ لیکن حیران کن بات ہے کہ اس کے بخارات سے جو بارش برستی ہے اس میں نہ نمک کی آمیزش ہوتی ہے نہ کسی دوسرے کیمیکل کی۔ حالانکہ ہم خود آبی بخارات کے ذریعہ عرق کشید کرتے ہیں۔ مثلاً سونف کا عرق یا گلاب کا عرق تو اس عرق میں سونف یا گلاب کا ذائقہ، تاثیر حتیٰ کہ خوشبو تک سب کچھ منتقل ہوجاتا ہے۔ مگر سمندر کے آبی بخارات سے برسنے والی بارش ہر قسم کے اثرات سے پاک صاف اور محفوظ ہوتی ہے۔ اور یہ پانی خود ہی پاک صاف نہیں ہوتا بلکہ دوسری اشیاء کو بھی گندگی، غلاظت اور نجاست سے پاک صاف بنا دیتا ہے۔