رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
وہ لوگ جنہیں تجارت اور بیع اللہ کے ذکر اور نماز کے قائم کرنے ، اور زکوۃ دینے سے غافل نہیں کرتی ، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ۔
[٦٣] ان ہدایت یافتہ لوگوں کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھروں کے اندر بھی اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور گھروں سے باہر بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ اپنے کام کاج یا کاروبار کرتے وقت بھی اللہ کی یاد ان کے دلوں میں موجود رہتی ہے جو انھیں اللہ کی نافرمانی والے ہر کام سے باز رکھتی ہے۔ وہ صرف اس چند روزہ زندگی کے فائدوں کی ہی طلب گار نہیں ہوتے بلکہ ان کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی رہتی ہے اور اللہ کے حضور وہ اپنے اعمال کی جواب دہی سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ دن ہی اتنا سخت اور ہولناک ہوگا۔ جس میں ہر شخص کا دل بھی بے قرار ہوگا اور آنکھیں بھی بے قرار ہوں گی۔ اور ان ہدایت یافتہ لوگوں کا بھی یہ حال ہوگا۔ کہ کبھی وہ اللہ کی رحمت کی امید لگائے ہوں گے اور اللہ کے عذاب سے اور اس کی گرفت سے ڈرنے لگیں گے۔ یہی حال آنکھوں کا ہوگا کبھی وہ دائیں طرف دیکھیں گی اور کبھی بائیں طرف تاکہ یہ دیکھیں کس جانب ان کا نامہ اعمال ان کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ [٦٤] وہ لوگ اس توقع پر یہ سارے کام کرتے ہیں کہ اللہ کے ہاں اپنے ان عملوں کا بہتر بدلہ ملے۔ جو یقیناً انھیں مل جائے گا۔ اللہ صرف ان کے اعمال کا بہتر بدلہ ہی نہ دیں گا بلکہ اس کے علاوہ انھیں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازیں گے جو اس وقت ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس شخص پر راضی اور خوش ہوجائیں تو اللہ کے ہاں کس چیز کی کمی ہے جو اسے نہ دے گا۔