لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
جب تم نے اس کو سنا تھا ، تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہ کیا ، اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے ؟
[١٥] اس واقعہ افک کی پوری روئیداد خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سنئے۔ وقعہ افک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی :۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (خود اپنا واقعہ افک یوں) بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے۔ قرعہ میں جس بی بی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ آپ نے ایک غزوہ (بنی مصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا۔ پس میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی اور یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے میں سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودہ سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے فارع ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آن پہنچے۔ ایک رات کوچ کا حکم ہوا یہ حکم سن کر اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ظفار کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں۔ کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ پر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں۔ اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہٰذ ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا۔ علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کمسن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیئے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار (جو اونٹ کے نیچے آگیا تھا) مجھے مل گیا میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گئی۔ جہاں رات کو اترے تھے۔ دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (سب جاچکے ہیں) میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا اور میں سوگئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے کی خبر رکھنے کے لئے) ھفوان بن معطل سلمی مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کے سوا کوئی بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے ہاتھ سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے تاآنکہ ہم لشکر سے سو اس وقت جاملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے۔ اور جن لوگوں نے قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے اس تہمت کو سب زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ البتہ ایک بات سے مجھے وہم سا پیدا ہوا۔ وہ یہ تھی کہ آپ کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں نہیں پائی تھی۔ آپ تشریف لاتے، سلام علیک کہتے پھر یہ پوچھ کر کہ (اب طبیعت) کیسی ہے چل دیتے۔ اس بات سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بات کی خبر نہ تھی۔ گھروں سے باہر قضائے حاجت کی جگہیں :۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا اور ابھی کمزور ہی تھی کہ مناصع کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (سلمیٰ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کے لئے جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اپنے گھروں کے نزدیک ہم بیت الخلاء نہیں بناتے تھے بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لئے جنگل جایا کرتے۔ کیونکہ گھروں کے قریب بیت الخلاء بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم بن عبدمناف کی بیٹی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی، ابو بکر صدیق کی خالہ تھی۔ اسی کا بیٹا مسلح تھا۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو کہنے لگی : ” مسطح ہلاک ہو‘‘ میں نے اسے کہا: ’’کیا بکتی ہو، کیا تم ایسے شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟“ وہ کہنے لگی : ’’اے بھولی لڑکی، کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا جو وہ کہتا ہے؟“پوچھا ” کیا کہتا ہے؟‘‘ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا، اب کیسی ہے؟ میں نےکہا : آپ مجھے اجازت دیجئے میں اپنے والدین کے ہاں جانا چاہتی ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے ہاں آگئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا۔ ’’امی! یہ لوگ (میری نسبت) کیا بک رہے ہیں؟“ اس نے کہا : ” بیٹی اتنا رنج نہ کرو۔ اللہ کی قسم! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں “ میں نے کہا”: سبحان اللہ ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔‘‘ چنانچہ میں یہ ساری رات روتی رہی۔ صبح ہوگئی۔ مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں ان سے مشورہ چاہتے تھے۔ چنانچہ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ نے آپ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے محبت تھی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پاکدامن اور بے قصور ہیں۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا : ” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی نہیں کرے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی بہت عورتیں ہیں اور اگر آپ بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھیں تو وہ آپ ٹھیک ٹھیک بتلا دے گی“ چنانچہ آپ نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تم نے کوئی ایسی بات بھی دیکھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو؟ بریرہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں : ”اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ ہاں میں اس میں ایک بات دیکھتی ہوں اور اس سے چشم پوشی کر جاتی ہوں اور وہ یہ کہ وہ ابھی کم سن بچی ہے۔ آٹا گندھا پڑا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے“ (ان شہادتوں کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن ابی سلول کے خلاف آپ نے مدد چاہی۔ فرمایا۔ مسلمانوں! اس شخص کے مقابل کوئی میری حمایت کرتا ہے۔ جس نے میرے اہل خانہ کے بارے میں مجھے دکھ پہنچایا ؟ میں نے تو اپنے اہل خانہ میں بھلائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص سے یہ لوگ متہم کرتے ہیں اس میں بھی میں نے بھلائی ہی دیکھی ہے۔ وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں آتا بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (اوس قبیلہ کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ''میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے کا ہے تو آپ جو حکم دیں گے بجا لائیں گے“ یہ بات سن کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو خزرج قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے۔ وہ ایک نیک بخت آدمی تھے مگر قومی حمیت نے آدبوچا تو کہنے لگے : سعد بن معاذرضی اللہ عنہ ! اللہ کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اسے مارے گا نہ مارسکے گا۔ اتنے میں اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کے چچا زادبھائی تھے۔ کھڑے ہو کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : اللہ کی قسم! تو جھوٹا ہے ہم ضرور اسے قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرفداری کرتا ہے؟ اس پر دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر پر ہی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سمجھاتے اور تھماتے رہے جب وہ خاموش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہوگئے۔ میرا وہ دن بھی رونے دھونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی۔ میرے والدین سمجھے کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے سلام کیا۔ پھر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ بھر آپ انتظار کرتے رہے مگر وحی نہ آئی۔ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا۔ پھر فرمایا : ” عائشہ ! مجھے کو تیری نسبت ایسی ایسی خبر آئی ہے۔ اگر تو پاک ہے تو اللہ تیری بریت فرمائے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے تو اللہ سے اپنے قصور کی معافی مانگ اور توبہ کر۔ جب بندہ گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے“ جب آپ یہ گفتگو ختم کرچکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ ’’آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں“ وہ کہنے لگے!” اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں“ پھر میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے کہا کہ تم جواب دو اس نے کہہ دیا کہ ”میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دوں“ آخر میں خود ہی جواب دینے لگے۔ میں ایک کمزور لڑکی تھی۔ قرآن مجھ کو زیادہ یاد نہ تھا۔ میں نے کہا : ”اللہ کی قسم! میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ لوگوں نے سنی ہے آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے۔ اور اگر میں گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں کہ ” اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے“ یہ کہہ کر میں نے کروٹ بدلی۔ مجھے یہ یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں۔ لہٰذ اللہ تعالیٰ ضرور میری بریت کردے گا۔ مگر اللہ کی قسم مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی آیات نازل کرے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی میں اپنی شان اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی۔ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بریت واضح ہوجائے گی۔ پھر اللہ کی قسم! ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ہلے بھی نہ تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا آدمی وہاں سے باہر گیا کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ معمول کے موافق آپ پر سختی ہونے لگی اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ دن سردی کا دن تھا۔ مگر وحی اترنے میں ایسی ہی سختی ہوتی تھی۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کی : ” عائشہ رضی اللہ عنہا ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری بریت فرما دی“ میری والدہ مجھے کہنے لگی : اٹھو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا۔” اللہ کی قسم میں نہیں اٹھوں گی میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی“اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ جَاءُوْ بالْاِفْکِ ﴾پوری دس آیات۔ جب یہ آیات اتری تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے، جو محتاجی اور رشتہ کی وجہ سے مسطح کی مدد کیا کرتے تھے، کہا : ’’اللہ کی قسم! آئندہ میں مسطح کو کچھ نہیں دیا کروں گا جبکہ اس نے عائشہ کے متعلق ایسی باتیں کیں “ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ ۔۔۔ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ یہ آیت سن کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔ پھر وہ مسطح سے پہلا سا سلوک کرنے لگے اور کہا :” اللہ کی قسم! جب تک مسطح زندہ رہا میں یہ معمول بند نہ کروں گا‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : (اس تہمت کے زمانہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بن جحش (ام المومنین) سے میرا حال پوچھتے کہ ” تم عائشہ کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے؟“ تو انہوں نے کہا : ” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو اچھا ہی سمجھتی ہوں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے زینب ہی میرے برابر کی تھیں۔ بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انھیں بچا لیا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اپنی بہن سے اس بارے میں جھگڑنے لگی تو جیسے دوسرے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس مفصل حدیث کی رو سے مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے : ١۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کو ایک بہتان ہی سمجھتے تھے۔ وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ کو ہی نہیں، صفوان بن معطل کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔ ٢۔ اس قصہ کا براہ راست صدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پہنچتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے بہتان تراشوں کا صفایا بھی کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب قومی اور قبائلی عصبت کی بناء پر اس میں جھگڑا شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدمہ جانکاہ خود اپنی ذات پر برداشت کرلیا۔ مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔ ٣۔ آپ اس سلسلہ میں پورا مہینہ بے تاب و بے قرار رہے اس لئے کہ یقینی علم یا علم غیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہ تھا۔ ورنہ آپ دوسروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کوئی استفسار نہ فرماتے۔ اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ ہو کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا ثابت نہ کرنے لگیں۔ ٤۔ اپنے یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعہ کو حتمی تردید اس لئے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لئے تردید مخالفین کی نظروں میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ ٥۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے والدین بھی ذاتی طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پاکباز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان کے جواب سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لئے نہ کرسکتے تھے یا پاکبازی کا بیان اس لئے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کرسکتا۔ ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں سیدنا اسامہ بن زید، سیدہ بریرہ اور ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش سے استفسار فرمایا اور یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔ سب نے پرزور الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکبازی کا بیان دیا۔ سیدہ زینب جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوکن اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ان کے مقابلہ کی چوٹ تھیں۔ انہوں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر خیر ہی فرمایا۔ چوتھے گھر کے فرد سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے جن سے آپ نے استفسار فرمایا۔ انہوں نے اس الزام کی تردید یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کبیدگی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا۔ تاہم ان کی زبان سے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات یا پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔ ٧۔ واقعہ کے دوران عامۃ المسلمین کابلند پایہ اخلاق:۔ عامۃ المسلمین کی بھی اخلاقی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقوں کے پرزور پروپیگنڈہ کے باوجود تین افراد کے سوائے کوئی ان سے متاثر نہ ہوسکا ان میں سے بھی حمنہ بنت جحش اپنی بہن کی خاطر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نیچے دکھانے کی وجہ سے اس بہتان میں شامل ہوگئی تھیں۔ اور اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے خیر کے پہلو یہ تھے : ١۔ اس واقعہ سے مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہوگیا اور منافقین چھٹ کر سامنے آگئے۔ جو یہ چاہتے تھے کہ اس طرح مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمانوں کی اخلاقی توفق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔ ٢۔ جو افراد اس صدمہ سے جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کے لئے تسلی اور خوش کا باعث ہوئی۔ جب وحی ختم ہوئی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کی وجہ سے ہنس رہے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کی خوشی کا بھی یہ اثر تھا کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرنے کو کہا۔اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی خوشی کی تو کچھ انتہا ہی نہ تھی جن کو یہ وہم وگمان بھی نہ تھا کہ ان کی بریت میں دس آیات نازل ہوں گی جو تا قیامت پڑھی جاتی رہین گی اور آئندہ کے لئے ان کا لقب ہی صدیقہ پڑگیا۔ ٣۔ مسلمانوں کو ایسی ہدایات و احکام دیئے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ خیز اور فتنہ پرور طوفانوں کا بخیر و بخوبی مقابلہ کرسکیں۔ [١٦] جب اس بہتان کا عام چرچا ہونے لگا تو ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا : لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ کہنے لگے :” لوگ بکواس کرتے ہیں۔ تم خود ہی بتلاؤ۔ کہ تم ایسا کام کرسکتی ہو؟ وہ کہنے لگی : ” ہرگز نہیں “ وہ کہنے لگے : پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تجھ سے بڑھ کر پاک صاف اور طاہر و مطہر ہیں۔ ان کی نسبت ایسا بے وجہ گمان کیوں کیا جائے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں خود ہوتا تو ایسا خیال تک نہ کرسکتا تھا اور صفوان تو مجھ سے بہتر مسلمان ہے“ اور مسلمانوں کی اکثریت کی فکر کا اندازہ یہی تھا۔