يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جس وقت ان پر چمکتی ہے تو وہ اس میں چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کے لے جائے ، بیشک خدا ہر شے پر قادر (ف ١) ہے ۔
[٢٥] منافقوں کی مثال (٢) :۔ یہ ایک دوسری قسم کے منافقوں کی مثال بیان کی گئی ہے۔ پہلی قسم کے منافق تو وہ تھے جن کے دل میں کفر ہی کفر تھا۔ مگر مفاد پرستی کی خاطر مسلمانوں کے سامنے اسلام کا دعویٰ کرتے تھے، اور یہ دوسری قسم ان منافقوں کی ہے جو شک اور تذبذب کا شکار ہیں۔ اس مثال میں زوردار مینہ سے مراد اسلامی احکامات کا نزول ہے جو پے در پے ہو رہے تھے اور جو جملہ انسانیت کے لیے رحمت ہی رحمت تھے اور اس میں تاریکیوں اور کڑک سے مراد وہ مصائب و مشکلات ہیں جو مسلمانوں کو اقامت دین کے سلسلہ میں پیش آ رہی تھیں اور چمک سے مراد وہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہو رہی تھیں۔ اب جب کوئی کڑک کی آواز یا مصیبت مسلمانوں کو درپیش ہوئی تو یہ منافق اپنی جان بچانے کی خاطر مسلمانوں سے الگ ہو کر حفاظتی اقدامات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس صورت میں بھی ان کو ہلاک کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور مسلمانوں کی کامیابی اور ان کی مسلمانوں سے علیحدگی ہی ان کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔ پھر جب معاملہ ذرا سہل ہوجاتا ہے اور مصائب چھٹ جاتے ہیں تو یہ لوگ اسلام کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور جب کوئی سخت احکام نازل ہوتے ہیں تو وہیں ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو پہلی قسم کے منافقوں کی طرح ان کی بصارت اور سماعت کو بھی سلب کرسکتا تھا۔ مگر اللہ کا قانون ہی یہ ہے کہ جو شخص جس حد تک دیکھنا اور سننا چاہتا ہے۔ اسے اس حد تک سننے اور دیکھنے دیا جائے، اگرچہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔