سورة المؤمنون - آیت 76

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے انہیں عذاب (ف ٤) ۔ میں پکڑا تھا تو بھی انہوں نے نہ اپنے رب کے سامنے عاجزی کی اور نہ گڑ گڑائے ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٦] کفار مکہ پرقحط:۔ جب ابتدائے اسلام میں ہی کفار مکہ نے مسلمانوں اور پیغمبر اسلام پر مصائب ڈھانا شروع کئے اور یہاں تک مخالفت کی کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حضور ان کے حق میں بددعا کی اور فرمایا :’’یا اللہ ! ان پر حضرت یوسف علیہ السلام والے قحط کے سات سال مسلط کر۔‘‘ چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوگئی تو ان پر قحط کا عذاب آگیا۔ بارشیں رک گئیں۔ باہر سے غلہ آنا بھی رک گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ لوگ مردار، ہڈیاں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے مگر بھوک پھر بھی نہ مٹتی تھی۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے اور بھوک کی وجہ سے اتنے کمزور ہوگئے کہ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو انھیں دھواں نظر آتا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور سورۃ دخان میں صراحت سے مذکور ہے۔ بالآخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا تم تو رشتہ جوڑنے کی تاکید کرتے رہتے ہو اور ہم تمہاری ہی برادری ہو کر بھوکوں مر رہے ہیں ہمارے لئے اللہ سے رحم کی دعا کر۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اللہ نے رحم کردیا۔ بارشیں بھی شروع ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی اور بھلے دن آگئے پھر کفار مکہ سب باتیں بھول گئے اور پھر پہلے کی طرح مسلمانوں کو دکھ دینا شروع کردیا۔