يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
مومنو ! اپنی کمائی کی اچھی چیزوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے خرچ کرو اور گندی شے پر نیت نہ رکھو کہ اس میں سے خرچ کرنے لگو ، حالانکہ تم خود اسے کبھی نہ لوگے ۔ مگر یہ کہ اس میں چشم پوشی کر جاؤ اور جان کو کہ اللہ بےپرواہ خوبیوں والا ہے (ف ١)
[٣٨٣]ناقص مال کاصدقہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ہم گروہ انصار کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ ہم کھجوروں والے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی قلت و کثرت کے موافق کھجوریں لے کر آتا، کوئی ایک خوشہ، کوئی دو خوشے اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتا۔ اہل صفہ کا یہ حال تھا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا۔ ان میں سے جب کوئی آتا تو عصا سے خوشہ کو ضرب لگاتا تو اس سے تر اور خشک کھجوریں گر پڑتیں جنہیں وہ کھا لیتا اور جنہیں نیکی کی رغبت نہ ہوتی تھی وہ ایسے خوشے لاتے جن میں ناقص اور ردی کھجوریں ہوتیں اور ٹوٹے پھوٹے خوشے لے کر آتے تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہر شخص اچھی کھجوریں لاتا۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جیسے زمین کی پیداوار میں زکوٰۃ فرض ہے ویسے ہی اموال صنعت و تجارت میں بھی فرض ہے۔ نیز یہ بھی کہ خرچ اچھا اور ستھرا مال ہی کرنا چاہیے۔ ناقص اور ردی مال صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ کے سلسلہ میں درج ذیل احادیث و احکام ملاحظہ فرمائیے۔ تجارتی اور صنعتی پیداوار پرز کوٰۃ کاوجوب:۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں گو تجارت ہی قریش مکہ کا شغل تھا لیکن ان کا انداز بالکل الگ تھا۔ سال بھر میں دو دفعہ تجارتی قافلے سامان لے کر شام کی طرف نکل جاتے، پھر ادھر سے سامان لا کر مکہ میں فروخت کرتے، پھر دوسرے سفر کی تیاری شروع کردیتے۔ لہٰذا مستقل دکانوں کا وجود کم ہی نظر آتا تھا۔ اسی طرح صنعت کا کام بھی نہایت محدود طور پر اور انفرادی سطح پر ہوا کرتا تھا۔ لہٰذا اموال تجارت و صنعت کے احکام اس طرح تفصیل سے احادیث میں مذکور نہیں جس طرح دوسری محل زکوٰۃ اشیاء کی تفصیل مذکور ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ ادا کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ لوگ اس قسم کی زکوٰۃ کے وجوب کو جانتے ہی نہ ہوں یا اس کے قائل ہی نہ ہو۔ لہٰذا اس موضوع پر تفصیلی کلام کی ضرورت ہے۔ اموال و صنعت و تجارت پر سب سے بڑی دلیل یہی آیت ہے۔ کیونکہ تجارت اور صنعت بھی انسان کا کسب ہے اور اس کی تائید درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ١۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جس کے پاس مال نہ ہو (وہ کیا کرے؟) آپ نے فرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے، خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا : اگر یہ بھی نہ ہو سکے آپ نے کہا : تو پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری بات سے پرہیز کرے، یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقة) ٢۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ان تمام اشیاء سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے جنہیں ہم خرید و فروخت کے لیے تیار کرتے تھے۔ (ابو داؤد، دار قطنی، بحوالہ منذری فی مختصر سنن ج ٢ ص ١١٥) اس حدیث سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر فروختنی چیز پرزکوٰۃ ہے خواہ اس کا ذریعہ حصول تجارت ہو یا صنعت ہو اور دوسرے یہ کہ جو چیز فروختنی نہ ہو اس پرزکوٰۃ نہیں، مثلاً دکان کا فرنیچر اور باردانہ یا فیکٹری کی مشینری یا آلات کشا ورزی اور ہل چلانے والے بیل وغیرہ۔ یعنی ہر وہ چیز جو پیداوار کا ذریعہ بن رہی ہو اس پرزکوٰۃ نہیں اور اس اصل کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو یہ ہے : لیس فی العوامل صدقہ وفی الإبل، ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمة- صنعتی اور تجارتی اموال پرزکوٰۃ کاوجوب:۔ ۳۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اونٹوں میں زکوٰۃ ہے۔ بکریوں میں زکوٰۃ ہے، گائے میں زکوٰۃ ہے اور تجارتی کپڑے میں زکوٰۃ ہے۔ (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، باب لیس فی الخضروات صدقة) اس حدیث میں تجارتی کپڑے کے لیے بز کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بزاز کپڑا فروش کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے باقی تجارتی اموال پر بھی زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ ٤۔ حضرت عمرو بن حماس چمڑے کے ترکش اور تیر بنایا کرتے تھے۔ یعنی یہ ان کا پیشہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ ابو عمرو کہنے لگے۔ میرے پاس ان تیروں اور چمڑے کے ترکشوں کے سوا ہے کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہی کا حساب لگاؤ اور ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (احمد، ابن ابی شیبہ عبدالرزاق، دار قطنی بحوالہ الام للشافعی ج ٢ ص ٣٨ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے بھی صنعتی پیداوار پرزکوٰۃ کا واجب ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ٥۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنے دور خلافت میں تاجروں کا مال اکٹھا کرتے۔ پھر ان اموال موجود اور غیر موجود سب کا حساب لگاتے پھر اس تمام مال پرزکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے۔ (المحلیٰ ج ٦ ص ٣٤ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) اب مفسرین کی طرف آئیے وہ ﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں۔ زکوامن طیبات ماکسبتم بتصرفکم اما التجارۃ و اما الصناعة ( یعنی جو کچھ تم نے اپنے تصرف یا محنت سے کمایا ہو اس سے زکوٰۃ ادا کرو۔ خواہ یہ تجارت کے ذریعہ کمایا ہو یا صنعت کے ذریعہ سے (تفسیر طبری ج ٢ ص ٨٠ طبع ١٣٧٢ ھ؍١٩٥٤ ء تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٤٠ تفسیر قرطبی ج ٢ ص ٣٢٠، طبع ١٩٣٦ ء، تفسیر قاسمی (ج ٢ ص ٦٨٣ طبع ١٣٧٦ ھ؍ ١٩٥٧ء) علاوہ ازیں عقلی طور پر بھی یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک غریب کسان تو اپنی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کرے اور وہ سیٹھ جو کسان سے بہت کم محنت کر کے کروڑوں روپے کما رہا ہے اس پرزکوٰۃ عائد ہی نہ ہو، یہ حد درجہ کی ناانصافی ہے۔ تجارتی اموال پرزکوٰۃ کی تشخیص کے اصول ١۔ اموال زکوٰۃ کی تشخیص موقع پر ہوگی یعنی اسی جگہ جہاں یہ مال موجود ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ باب این تصدق الاموال) ٢۔ زکوٰۃ اسی مال سے لینا بہتر ہے جس کی زکوٰۃ ادا کرنا مقصود ہو۔ مثلاً کپڑے کی دکان ہے تو کپڑا ہی زکوٰۃ میں عامل کو لینا چاہیے یا اگر زکوٰۃ دینے والا چاہے تو کپڑے کی زکوٰۃ کپڑے سے ہی دے سکتا ہے۔ اسی طرح کتابوں کی زکوٰۃ کتابوں سے، بکریوں کی بکریوں سے اور یہ زکوٰۃ کا عام اصول ہے جس میں زکوٰۃ دہندہ کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ہاں اگر زکوٰۃ دینے والا خود ہی نقدی کی صورت میں ادا کرنا چاہے تو ایسا کرسکتا ہے اور اس میں بھی زکوٰۃ دینے والے کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ ضروری نہیں کہ سونے یا چاندی کے زیور کی زکوٰۃ سونے، چاندی کی شکل میں ہی دی جائے۔ بلکہ اس کی موجودہ قیمت لگا کر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جا سکتی ہے۔ ٣۔ زکوٰۃ میں نہ عمدہ عمدہ مال لیا جائے اور نہ ناقص۔ بلکہ اوسط درجہ کا حساب رکھا جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو زکوٰۃ کی وصولی کے متعلق جو ہدایات دیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ایاک وکرائم اموال الناس (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقة من الاغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا) یعنی لوگوں کے عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا۔ مثلاً اگر کتابوں کی دکان سے زکوٰۃ وصول کرنا ہو تو یہ نہ کیا جائے کہ کسی بہترین مصنف کی کتب منتخب کرلی جائیں جن کی مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہو، بلکہ زکوٰۃ میں ملا جلا یا درمیانی قسم کا مال لینا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ادا کرنے والا خودزکوٰۃ نکالنا چاہے تو یہ نہ کرے کہ جو مال فروخت نہ ہو رہا ہو اسے زکوٰۃ میں دے دے، بلکہ یا تو ہر طرح کا مال دے یا پھر صرف درمیانہ درجہ کا۔ ٤۔ مال کی تشخیص بحساب لاگت ہوگی، یعنی چیز کی قیمت خرید بمعہ خرچہ نقل و حمل وغیرہ قیمت فروخت پر نہ ہوگی۔ ٥۔ فرنیچر اور باردانہ وغیرہ زکوٰۃ کے مال میں محسوب نہ ہوں گے، جیسا کہ اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔ ٦۔ زکوٰۃ سال بھر کا عرصہ گزرنے کے بعد نکالی جائے گی اور یہ سال قمری سال شمار کرنا ہوگا، شمسی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب میں عاملین کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے، مگر یہ ضروری نہیں۔ آج کل لوگ اکثر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بہتر بھی ہے کہ رمضان میں ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زکوٰۃ پوری یا اس کا کچھ حصہ سال پورا ہونے سے پہلے بھی دی جا سکتی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کی اجازت دے دی (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوٰۃ) ٧۔ تجارتی اموال پر شرح زکوٰۃ بچت کی زکوٰۃ والی شرح ہی ہے یعنی چالیسواں حصہ۔ کیونکہ تجارت میں لگایا ہوا سرمایہ سب بچت ہی ہوتا ہے۔ ٨۔ زکوٰۃ موجودہ مال پر عائد ہوگی۔ مثلاً زید نے دس ہزار سے کام شروع کیا۔ جو سال بعد بارہ ہزار کی مالیت کا ہوگیا تو زکوٰۃ دس ہزار پر نہیں بلکہ بارہ ہزار پر شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر اسے نقصان ہوگیا یا گھر کے اخراجات زیادہ تھے، جو نفع سے پورے نہ ہو سکے اور مالیت صرف آٹھ ہزار رہ گئی تو زکوٰۃ آٹھ ہزار پر محسوب ہوگی۔ ٩۔ جو مال ادھار پر فروخت ہوا ہے تو وہ ادھار رقم بھی سرمایہ میں شمار ہوگی۔ الا یہ کہ وہ ایسا ادھار ہو جس کے ملنے کی توقع ہی نہ ہو۔ ایسا ادھار محسوب نہ ہوگا۔ ایسے ادھار کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب بھی ایسا ادھار وصول ہوجائے تو اس کی صرف ایک بارزکوٰۃ ادا کر دے۔ تجارتی قرضوں کے علاوہ عام قرضوں کی بھی یہی صورت ہے۔ ١٠۔ اگر دکاندار نے کسی سے رقم ادھار لے کر اپنے سرمایہ میں لگا رکھی ہے تو یا تو وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے وہ ادھار واپس کر دے ورنہ وہ اس کے سرمایہ میں محسوب ہوگا۔ ١١۔ مال مستفاد کی آمیزش۔ مثلاً زید نے کاروبار دس ہزار سے شروع کیا۔ چند ماہ بعد اسے پانچ ہزار کی رقم کسی سے مل گئی اور وہ بھی اس نے کاروبار میں شامل کردی۔ اب اگر وہ چاہے تو سال بعد اس بعدوالی رقم کا حساب الگ رکھ سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ساتھ ہی ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ نکال دی جائے، تاکہ آئندہ حساب کتاب کی پیچیدگیوں سے نجات حاصل ہوجائے۔ پھر اگر مال زکوٰۃ کچھ زیادہ بھی نکل گیا تو اللہ اس کا بہت بہتر اجر دینے والا ہے۔ ١٢۔ بعض دکانیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اچھا خاصا کاروبار ہوتا ہے۔ مگر دکان میں مال یا تو برائے نام ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں۔ مثلاً سبزی فروش، پھل فروش، شیر فروش، قصاب، ہوٹل، اخباروں کے دفاتر یا پراپرٹی ڈیلروں کے دفاتر وغیرہ، ایسی دکانوں یا کاروباری اداروں میں موجود مال کے حد نصاب کو پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی اڑھائی فیصد کی شرح سے یا چالیسواں حصہ۔ ١٣۔ گوالے یا گوجر حضرات کی دکان سرے سے ہوتی نہیں، بس ایک لکڑی کا تختہ یا تخت ہی ان کی دکان ہوتی ہے۔ یہ لوگ کافی تعداد میں گائے بھینسیں رکھتے ہیں۔ ان پر مویشی کی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی کیونکہ وہ عامل پیداوار ہے۔ ان کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یہی صورت ڈیری فارم، پولٹری اور مچھلی فارم وغیرہ کی بھی ہے۔ ١٤۔ گائے بھینسیں اگر افزائش نسل کی خاطر رکھی جائیں تو ان پر گائے کی زکوٰۃ کی صورت میں زکوٰۃ لگے لگی، اور کوئی صاحب مویشیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہوں تو سالانہ منافع پر تجارتی زکوٰۃ ہوگی اور ڈیری فارم یا گوالوں کے پاس ہو تو یہ عامل پیداوار ہیں۔ ان کی زکوٰۃ بھی سالانہ منافع پر ہوگی۔ ١٥۔ دکانوں اور مکانوں کے کرایہ یا کرایہ پر دی ہوئی ٹیکسیاں اور گاڑیاں وغیرہ ایسی چیزوں یعنی دکانوں، مکانوں یا ٹیکسیوں کی مالیت پرزکوٰۃ نہیں ہوتی بلکہ وصول شدہ کرائے کی کل رقم پر ہوگی اور سال بعد یہ حساب ہوگا۔ مثلاً ایک دکان کا کرایہ دو ہزار ہے تو سال بعد ٢٤ ہزار پرزکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خواہ یہ رقم ساتھ ساتھ خرچ ہوجائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کرایہ کی دکانوں کی زکوٰۃ ایسے ہی ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ اس رقم سے پراپرٹی ٹیکس یا دوسرے سرکاری واجبات کی رقم مستثنی کی جا سکتی ہے۔ ١٦۔ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار : جو لوگ اپنے زائد سرمایہ سے زمینوں کے پلاٹ اور مکان وغیرہ کی تجارتی نظریہ سے خرید و فروخت کرتے رہتے ہیں۔ ان کی فروخت کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا۔ خواہ تین ماہ بعد بک جائیں، خواہ دو سال تک بھی نہ بکیں۔ ایسی جائیداد جب بھی بک جائے اس وقت ہی اس کی زکوٰۃ نکال دینا چاہیے اور یہ زکوٰۃ قیمت فروخت پر ہوگی اور تجارتی زکوٰۃ ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لیے کوئی دکان، مکان، پلاٹ یا گاڑی وغیرہ خریدتا ہے تو اس پرزکوٰۃ نہیں۔ ١٧۔ مشترکہ کاروبار یا سرمائے کی کمپنیوں میں لگے ہوئے سرمایہ کے متعلق یہ تسلی کر لینی چاہیے کہ آیا کمپنی اس مجموعی سرمایہ کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے یا نہیں۔ اگر کمپنی نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو ہر حصہ دار کو اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ خود ادا کردینا چاہیے۔ صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ: صنعتی پیداوار کی دو باتوں میں زرعی پیداوار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً :۔ ١۔ زمین کی اپنی قیمت اس کی پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور زکوٰۃ پیداوار پر لگتی ہے زمین کی قیمت پر نہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں اور ملوں کی قیمت اس پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو وہ پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذازکوٰۃ پیداوار پر ہونی چاہیے۔ ٢۔ جس طرح بعض زمینیں سال میں ایک فصل دیتی ہیں۔ بعض دو اور بعض اس سے زیادہ اسی طرح بعض کارخانے سال میں ایک دفعہ پیداوار دیتے ہیں۔ مثلاً برف اور برقی پنکھوں کے کارخانے وغیرہ بعض دو دفعہ جیسے اینٹوں کے بھٹے اور بعض سال بھر چلتے رہتے ہیں۔ اور ایک بات میں صنعتی پیداوار کی مماثلت تجارتی اموال سے ہے جس طرح تجارتی اموال پر لاگت کے مقابلہ میں منافع کم ہوتا ہے اسی طرح صنعتی اموال کا بھی حال ہے۔ جبکہ زرعی پیدوار میں لاگت کم اور پیداوار کی قیمت اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر دیانتداری کے ساتھ جو اصل مستنبط ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ صنعتی پیداوار پرزکوٰۃ پیداوار کے منافع پر ہونی چاہیے اور یہ پانچ فیصد یعنی نصف عشر ہونا چاہیے۔ خواہ یہ پیداوار سال میں ایک دفعہ ہو یا دو دفعہ کارخانے سارا سال کام کرتے ہیں ان پرزکوٰۃ تو سال بعد ہوگی مگر اس کی صورت وہی ہوگی یعنی زکوٰۃ پیداوار پر نہیں بلکہ منافع پر ہوگی اور یہ پانچ فیصد ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔