مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ان کی مثال جو راہ خدا میں اپنے مال خرچ خرچ کرتے ہیں ، اس دانہ کی مثال ہے جس سے سات بالیں اگیں ۔ اور ہر بال میں (١٠٠) سودانے ہوں ، (ف ٢) اور خدا جس کے لئے چاہے بڑھاتا ہے ، اور خدا کشائش والا ہے سب جانتا ہے ۔
[٣٧٦]صدقہ کا اجر کیسے گھٹتا بڑھتاہے؟ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٥٤ میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی تھی کہ قیامت کے دن یہی چیز کام آنے والی ہے۔ درمیان میں اللہ کی معرفت اور تصرف فی الامور کے چند واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی مضمون کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اس کا اجر عطا فرمائے گا اسی اضافے کو اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مثال سے واضح فرما رہے ہیں جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح صدقہ کا اجر و ثواب سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اجر کے حصول کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً :۔ حرام مال سےصدقہ قبول نہیں ہوتا:۔ ۱۔ بیج یا دانہ جس قدر تندرست اور قوی ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یا دانہ انسان کی نیت ہے وہ جس قدر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی۔ اسی قدر آپ کا صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ نیز یہ صدقہ حلال مال سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قبول ہی نہیں ہوتا۔ ٢۔ بیج کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس کی آبیاری اور کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ ورنہ فصل یا تو برباد ہوجائے گی یا بہت کم فصل پیدا ہوگی۔ اسی طرح صدقہ کے بعد اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہیے اور اسے احسان جتلا کر یا بے گار لے کر ضائع نہ کردینا چاہیے جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ ٣۔ بعض دفعہ فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس پر کوئی ایسی ارضی و سماوی آفت آ پڑتی ہے جو فصل کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کے اعمال میں یہ آفات شرک کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ نے بالکل درست نیت سے صدقہ کیا۔ پھر آبیاری اور حفاظت بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی وقت کوئی شرک کا کام کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ کام سنت کے خلاف (یعنی بدعت) ہوگا تو بھی وہ اجر کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔ صدقہ کا اجر :۔ ہاں جو شخص ان امور کا خیال رکھے تو اسے فی الواقعہ اتنا ہی اجر ملے گا جو اس آیت میں مذکور ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے اپنے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشوونما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی نشوونما کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا یقبل اللّٰہ صدقة من غلول۔ اور باب الصدقة من کسب طیب لقولہ تعالیٰ یمحق اللہ الربٰو اور یر بی الصدقات ....الایة- مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرۃ او کلمة طیبة۔۔ الخ) [٣٧٧] یعنی جتنا زیادہ اجر و ثواب دینا چاہے دے سکتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنے خلوص نیت سے تم نے یہ کام کیا تھا۔