سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ مجھ سے جلد عذاب مانگتے ہیں اور خدا ہرگز اپنا وعدہ خلاف نہ کرے گا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک تمہاری شمار سے ہزار برس کے برابر ہے (ف ٣) ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٥]قوموں کی طبعی عمر؟ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ابھرنے والی قوم یا تہذیب کی طبعی عمر ہزار سال ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ بلکہ یہ الفاظ انسان کے عذاب کو جلد طلب کرنے اور اس کے قانون تدریج و امہال کے مطابق تاخیر میں تقابل کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی قوم کے ظلم و جور میں اس قدر زیادتی واقع ہوجائے تو تین چار صدیاں گزرنے پر بھی اسے تباہ کردیا جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے۔ کہ کوئی قوم یا تہذیب ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ زندہ رہے۔ یہ سب باتیں کسی قوم کے گناہوں کی رفتار پر منحصر ہوتی ہیں۔