سورة الحج - آیت 8

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور آدمیوں میں کوئی ہے کہ اللہ کے بارہ میں بےعلم اور بےہدایت اور بےروشن کتاب کے جھگڑتا ہے (ف ١) ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] بدیہی علم کیاچیزہے؟ اس آیت میں علم کے لفظ کا اطلاق شرعی زبان میں عموماً وحی الٰہی پر ہوتا ہے مگر یہاں علم سے مراد فطری یا پیدائشی یا بدیہی علم ہے جو ہر انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہر جاندار کو اپنی زندگی کے بقاء کے لئے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے یا یہ کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یا یہ کہ کل ہمیشہ اپنے جزء سے جڑا ہوتا ہے یا یہ کہ آگ میں جو چیز ڈالی جائے، آگ اسے جلا دیتی ہے یہ ایسے امور ہیں جن کے لئے کسی عقلی یا نقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی کوئی شخص ایسے امور کے لئے دلیل کا مطالبہ کرتا ہے اور ھدی سے مراد عقلی دلیل ہے۔ مثلاً اسی کائنات کا مربوط نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو پیدا کرنے والی اور اسے کنٹرول میں رکھنے والی کوئی مقتدر علیم اور خبیر ہستی ہو۔ یا یہ کہ ہر چیز کا کوئی بنانے والا ہونا ضروری ہے۔ یا یہ کہ اگر کہیں راستہ میں اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہے تو وہ اس بات پر عقلی دلیل ہوتی ہے کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے اور کتاب منیر سے مراد کوئی نقلی یا سمعی دلیل ہے۔ یعنی ایسی دلیل جو کسی الہامی کتاب میں مذکور ہو۔ مثلاً یہ کہ اس کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے تصرف و اختیار میں یا اس کی ذات و صفات میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور قرآن کریم و احادیث ایسے سمعی یا نقلی دلائل سے بھرے پڑے ہیں۔ علم ہدایت اور کتاب کےبغیر اللہ کے بارے میں جھگڑا:۔ اب جو لوگ اللہ کی ذات یا اس کے اختیارات و تصرفات یا اس کی دوسری صفات کے بارے میں بحث یا کج بحثی یا جھگڑے کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو کوئی بدیہی یا تجرباتی دلیل (علم) ہوتا ہے۔ نہ کوئی عقلی دلیل (ھدی) ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سمعی، نقلی (کتاب منیر) دلیل ہوتی ہے۔ ان کی بحث فقط برائے بحث یا کج بحثی ہوتی ہے۔ ان کے پاس یہ بات کہنے کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ چونکہ ہمارے آباء و اجداد ایسا کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا ہم بھی ایسا کرتے ہیں یا کرتے رہیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ دلیل کوئی قسم نہیں اور اس جواب کا ماحصل یہی ہے کہ اگر بزرگوں نے گمراہی کی راہ اختیار کی تھی تو ان کی یہ گمراہی نسلاً بعد نسل ان کی اولاد در اولاد میں منتقل ہوتی چلی جائے۔ ان لوگوں کا اس جھگڑے سے اصل مقصد یہ ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو بھی ایمان و یقین کی راہ سے دور رکھیں اور اپنی طرح ان کو بھی گمراہ کرکے چھوڑیں۔ ایسے بغض و عناد رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ذلیل اور رسوا کرے گا اور اخروی عذاب تو بہرحال اس سے شدید تر ہوگا۔