إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
یہ سب لوگ تمہارے بن کے ہیں اور سب کا ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں سو میری بندگی کرو ، (ف ٢)
[٨٣]سب انبیاء کی مشترکہ تعلیم کیاتھی؟ اس مقام پر امت کا لفظ دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ نیز اس آیت میں تمام بنی نوع انسان یکساں مخاطب ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے دین کے اصول ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہر چیز کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا وہی عبادت کا مستحق ہے۔ اور اسی کو توحید کہتے ہیں۔ پھر اسی توحید کا لازمی نتیجہ یہ بھی تھا کہ اس توحید کو ماننے والوں اور صرف اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیا جائے اور اس کے خلاف کرنے والوں یعنی مشرکوں کو سخت سزا دی جائے۔ گویا روز آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھنا بھی اسی عقیدہ توحید کے تسلیم کرنے کا تقاضا ہے۔ نماز اور زکوٰۃ اور روزہ وغیرہ عبادت ہی کی اہم شکلیں ہیں۔ اور اللہ کی عبادت توقع اور خوف کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اولاد اور رزق وغیرہ اللہ ہی سے طلب کرنا چاہئے۔ اور مشکل کے وقت صرف اللہ ہی کو پکارنا چاہئے، اسی سے فریاد کرنا چاہئے۔ انبیاء خود بھی کوئی بااختیار ہستیاں نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ بھی ہر معاملہ میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ یہ اصول دین سب انبیاء میں مشترک رہے ہیں۔ رہیں جزئیات تو ان جزئیات میں اس دور کے تقاضا کے مطابق اختلاف بھی واقع ہوتا رہا ہے۔