سورة الأنبياء - آیت 87

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کر جب وہ غصہ سے لڑکر چلا گیا ، پھر سمجھا کہ ہم اسے نہ پکڑیں گے ، پھر تاریکیوں میں پکارا ، کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ، میں ظالموں میں تھا ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٧] نون کا لغوی مفہوم : ۔حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن میں اس مقام پر ذالنون کہا گیا ہے اور سورۃ القلم صاحب الحوت۔ حوت اسم جنس ہے جس کا اطلاق ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلی پر ہوسکتا ہے۔ جبکہ نون سب سے بڑی (وہیل مچھلی) کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن) اور آپ کا یہ لقب اس لئے ہوا کہ آپ ایک مدت مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ زندہ و سلامت رہے اور اس دوران اللہ کی تسبیحات پڑھتے رہے۔ سیدنا یونس مچھلی کے پیٹ میں اور آپ کی دعا:۔ آپ اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی ق م ہے۔ حسب معمول قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا۔ آپ نے قوم کے مستقل انکار پر اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ اور جب قوم نے کہا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے تو آپ نے از خود ہی انھیں چالیس دن بعد عذاب آنے کی وعید سنا دی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا تھا۔ پھر جب یہ مدت گزرنے کو ہوئی اور عذاب کی کوئی علامت نہ دیکھی تو غم اور غدصہ کی وجہ سے وہاں سے فرار کی راہ اختیار کی تاکہ قوم انھیں جھوٹا نہ کہے۔ کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہچکولے کھانے لگی۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا اور اس قرعہ کے نتیجہ میں حضرت یونس علیہ السلام کو سمندر میں پھینک دیا۔ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اس دوران آپ ہر وقت اللہ کی تسبیح اور اپنے گناہوں کے اعتراف پر مشغول رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مشکل سے نجات دی۔ اور مچھلی نے آپ کو برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ اسی قوم یعنی اہل نینوا کی طرف بھیجا۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ پیش آئی کہ جب حضرت یونس علیہ السلام مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قول کو پورا کردیا اور وقت معینہ پر اہل نینوا کو عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو وہ سب لوگ بچے، بوڑھے، جوان عورتیں مرد مل کر کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑ گڑائے اور توبہ کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں یہ ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب یونس علیہ السلام آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی۔ لہٰذا آپ کی تبلیغ کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔