قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ
بولا نہیں بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کام کیا ہے سو تم ان بتوں سے پوچھ لو ، اگر وہ بولیں ۔
[٥٥] چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب لوگوں کے سامنے برسر میدان لایا گیا اور ان سے پہلا سوال جو ہوا تو وہ اعتراف جرم سے متعلق تھا۔ کیونکہ جب تک مجرم کا جرم ہی ثابت نہ ہو سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا یہ گیا کہ : آیا ہمارے مشکل کشاؤں کو تم ہی نے توڑا پھوڑا ہے؟ اس سوال کا جواب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دیا کہ قرینہ کی شہادت تو یہ ہے کہ یہ سب کارستانی بڑے بت کی ہے۔ جس نے کلہاڑا اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ ممکن ہے بڑے خدا کو تمہارے جانے کے بعد چھوٹے خداؤں پر غصہ آگیا ہو اور اس نے انھیں تہس نہس کردیا ہو۔ اور اس سوال کا اصل حل یہ ہے کہ ان مظلوم اور ٹوٹے پھوٹے مشکل کشاؤں سے ہی پوچھ لو کہ ان پر کس نے یہ ظلم روا رکھا ہے اور یقین جانو کہ اگر وہ بولتے ہیں تو یقیناً تم کو اس سوال کا جواب دے دیں گے۔