سورة الأنبياء - آیت 51

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی نیک راہ عنایت کی تھی ، اور ہم اس کو جانتے تھے ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٦]رشد کا مفہوم :۔ رُشد سے مراد ایسی ہوش مندی ہے۔ جس سے انسان اپنے فائدہ و نقصان، نیک و بد اور خیر و شر میں امتیاز کرنے اور فائدہ کی بات کو قبول کرنے اور نقصان کی بات کو رد کرنے کے قابل ہوجائے۔ خواہ یہ نفع و نقصان دنیوی ہو یا اخروی ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے بہت مدت پہلے ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوش مندی اور عقل سلیم عطا کی تھی۔ وہ زمانے کے رسم و رواج کے پیروکار نہیں تھے۔ بلکہ ہر بات کے نفع و نقصان کو خود سوچنے کے عادی تھے۔ اور ہم ان کے حالات سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ فی الواقع رسالت الٰہی کے مستحق ہیں۔ لہٰذا ہم نے انھیں نبوت عطا فرمائی۔ اگرچہ یہ ہوش مندی بھی ہم نے ہی انھیں عطا کی تھی۔