سورة البقرة - آیت 247

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے ، وہ بولے کیونکر اس کو ہم پر حکومت ہو سکتی ہے ، حالانکہ بادشاہت کے ہم اس سے زیادہ حق دار ہیں اور وہ مال میں بھی بڑا مقدور والا نہیں ہے کہا کہ خدا نے اس کو تم سے چن لیا اور اس کو علم اور جسم میں زیادہ وسعت دی ہے اور خدا اپنا ملک جس کو چاہے دے اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے ۔ (ف ١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤٥]حکمران کی لازمی صفات:۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا جو ایک تیس سالہ جوان، خوبصورت اور قد آور شخص تھا۔ اس پر کئی لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ ’’طالوت کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، بھلا یہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے؟ اس سے تو ہم ہی اچھے اور بادشاہت کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ قیادت کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ طالوت میں موجود ہیں اور تم سے بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا تمہیں فضول قسم کی کٹ حجتیوں سے باز آنا چاہیے۔