سورة طه - آیت 81

كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اچھی چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں دین ، اور اس میں سرکشی نہ کرو ، کہ تم پر میرا غضب نازل ہو ، اور جس پر میرا غضب نازل ہوا ، وہی ٹپکا گیا ،

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٧]میدان تیہہ میں بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات:۔ یہاں پھر کئی تفصیلات کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے، جو دوسرے مقامات پر موجود ہے۔ مثلا ً اسی سفر میں بنی اسرائیل نے ایک مندر میں بعض لوگوں کو بت پوجتے دیکھا تو کہنے لگے۔ موسیٰ ! ہمیں بھی اس طرح کا ایک الٰہ یعنی محسوس خدا کا مجسمہ بنا دو۔ جس پر موسیٰ علیہ السلام نے انھیں ڈانٹ پلائی۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے انھیں پھر ہجرت کا مقصد بتلایا کہ تمہیں اپنے آبائی وطن کو غیروں کے قبضہ سے آزاد کرانا اور خود وہاں آباد ہونا ہے تو کہنے لگے! موسیٰ ! وہاں تو بڑے طاقتور اور جنگجو قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ہم ان سے جنگ نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو پھر ہم داخل ہوسکتے ہیں یا پھر تم اور تمہارا رب جاکر ان سے جنگ کرو۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں۔ ان کی اس بزدلانہ حرکت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا کے طور پر یہ حکم دیا کہ اب تم یہیں اسی میدان میں چالیس سال تک بھٹکتے پھرو۔ جس سے مقصد ان کی بزدلی کا علاج اور ان میں جرأت پیدا کرتا تھا۔ ایک تو جنگل کی زندگی ویسے ہی دلیر بنا دیتی ہے۔ دوسرے بڑے بوڑھے سب بزدل اتنے عرصہ میں مر کھپ جائیں گے اور جو نئی نسل پیدا ہوگی وہ غلامی کے بجائے آزادانہ فضا میں پرورش پائے گی وہ جرأت مند پیدا ہوگی۔ اس بیابان میں نہ رہنے کو مکان تھے اور نہ کوئی چیز کھانے کو ملتی یا پیدا ہوتی تھی نہ کہیں پانی کے چشمے یا گھاٹ تھے پھر یہ بنی اسرائیل بھی لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل تھے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کے ان مسائل کا حل ایسے معجزانہ انداز میں فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دھوپ کے وقت بادل سائبان کی طرح ان پر چھا جاتے مگر برستے نہیں تھے۔ اور رات کو غائب ہوجاتے۔ اسی میدان میں اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کو من و سلویٰ نازل فرمایا اور پانی کے بارہ چشمے جاری کردیئے۔ ان واقعات کی تفصیل سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ یہ سب نعمتیں عطا کرنے کے بعد اللہ نے انھیں حکم دیا کہ اب نہ زیادتی کرنا اور نہ سرکشی۔ زیادتی یہ تھی کہ ذخیرہ اندوزی کرکے دوسرے لوگوں کو ان کے حق سے محروم نہ بنا دینا اور سرکشی نہ کرنے کا مطلب یہ تھا۔ کہ اللہ کی ان نعمتوں کے ملنے پر اس کا شکر ادا کرتے رہنا اور اس کے عبادت گزار اور فرمانبردار بندے بن کر رہنا اور اگر اب بھی تم نے سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو یاد رکھو کہ پھر تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا جو تمہیں تباہ و برباد کردے گا۔