قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
وہ بولے جو کھلی دلیلیں ہمارے پاس آئی ہیں ان پر اور اس پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم تجھے ہرگز ترجیح نہیں دیں گے پس جو حکم تو دینا چاہئے وہ حکم دے ، تو صرف اسی دنیا کی زندگی میں حکم دے سکتا ہے ۔
[٥١] جادوگروں کی جرأت ایمانی :۔اس سزا کے اعلان پر جادو گر فرعون سے بڑی جرأت سے کہنے لگے : تم جو چاہے سمجھو ہم نے تو وہی بات کہی ہے جس کی ہمارے ضمیر نے شہادت دی ہے۔ ہم سب کچھ سمجھ سوچ کر ایمان لائے ہیں۔ لہٰذا اب تم جو سزا دینا چاہو دے لو۔ زیادہ سے زیادہ تم یہی کچھ کرسکتے ہو کہ ہمیں جان سے مار ڈالو گے، اور اس بات کی اب ہمیں پروا نہیں رہی۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ خطائیں معاف فرما دے اور بالخصوص اس گناہ کو جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا اور ہم ان پیغمبروں کے مقابلہ پر اتر آئے۔ کہتے ہیں کہ جب جادوگروں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام کی شکل و صورت دیکھی تو سمجھ گئے کہ یہ جادوگر نہیں ہوسکتے یہ مقابلہ نہ کرنا چاہئے پھر فرعون کے ڈر سے ایسا کیا۔ یہ ہے ایمان اور کفر کا فرق۔ یہی جادوگر مقابلہ سے پہلے فرعون کے سامنے جی حضور، جی حضور کہتے تھکتے نہ تھے۔ کہ فتح ہونے کی صورت میں اس سے انعام و اکرام ملنے کی التجا بھی کر رہے تھے اور فرعون انھیں ایسے وعدے بھی دے رہا تھا مگر جب ایمان لے آئے تو اسی جابر بادشاہ کے سامنے اکڑ کر اس جرأت سے بات کرتے ہیں اور اگر وہ سولی چڑھا دینے کی دھمکیاں دیتا ہے تو اس کی پروا تک نہیں کرتے۔