قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ
کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی (مناسب) صورت عطا فرمائی ، پھر اسے ہدایت فرمائی (ف ١) ۔
[٣٢] فرعون کا سیدنا موسیٰ سے پہلا سوال کہ تمہارا پروردگار کون ہے :۔ جب فرعون کے پاس پہنچ کر ان دونوں بھائیوں نے اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ پر اس کی دعوت پیش کی تو فرعون نے جو پہلا سوال یا اعتراض کیا وہ اس کی اپنی دکھتی رگ تھی۔ وہ خود خدائی کا دعوے دار تھا اور لوگوں کو اس نے یہی یقین دلایا ہوا تھا کہ وہی ان کا پروردگار ہے۔ فرعون بلاشبہ اس بات کا قائل تھا کہ زمین و آسمان اور موجودات کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سیاسی و قانونی حاکمیت کا وہ منکر تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ میرے اوپر کوئی ایسی بالاتر ہستی نہیں جس کا حکم مجھ پر چلتا ہو اور مجھے اس کا حکم ماننا ضروری ہو۔ لہٰذا اس نے فورا ً یہ سوال کردیا کہ ’’ایسا تمہارا پروردگار ہے کون؟‘‘ چونکہ فرعون اللہ تعالیٰ کی توحید و ربوبیت کا قائل تھا، اس لئے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس کا جواب ہی ایسا دیا جو ربوبیت سے تعلق رکھتا تھا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ میرا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو احسن ایک خاص ساخت عطا کی۔ پھر اس کا وظیفہ بھی اسے سمجھا دیا اور اس کی جبلت میں رکھ دیا۔ اس نے مچھلی پیدا کی تو اسے پانی میں تیرنا بھی سکھلا دیا، پرندے پیدا کئے تو انھیں اڑنا بھی سکھلا دیا۔ بچہ پیدا کیا تو اسے فورا ً ماں کے پستان سے چمٹنا اور دودھ پینے کا طریقہ بھی سکھلا دیا۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی ایسی رہنمائی نہ کرتا تو اس کے علاوہ کوئی بھی انھیں سکھلا نہیں سکتا تھا۔ واضح رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے خلق کل شئی نہیں بلکہ اعطی کل شئی خلقه فرمایاہے۔ جویہ معنی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی پیدائش کے وقت اسے ایک خاص شکل وصورت عطا فرمائی او ر وہی اس کےلیے مناسب تھی،مثلاً اللہ تعالیٰ نے جس جس مقام پر انسان کی آنکھیں ناک اور کان یادوسرے اعضاء بنائے تو وہی مقامات ان اعضاء کے لیے مناسب تھے،اگرا ن کو ادھر اُدھر کردیاجاتاتو ہر چیز بدصورت ہوتی اور اس کا حلیہ بھی بگڑاہواہوتا۔