إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا
جب وہ جوان غار میں جا بیٹھے ، پھر بولے اے رب ہم پر اپنی طرف سے رحم کر اور بنا دے ہمارے کام کی درستی ۔
[ ٩] اصحاب کہف کا غار میں پناہ لینا۔ عام روایات، کتب سیر اور قرآن کریم کے اشارہ کے مطابق یہ نوجوان سات تھے توحید پرست تھے اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے معاشرہ میں ہر سو شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا اس وقت کا رومی بادشاہ دقیانوس (Decius) (عہد حکومت ٢٤٩ ء تا ٢٥١ء ) خود بت پرست اور مشرک تھا عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے معاملہ میں اس کا عہد بہت بدنام ہے۔ ان ایام میں عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث تاہنوز وضع نہیں ہوا تھا یہ عقیدہ مدتوں بعد چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا لہٰذا ان ایام میں عیسائی توحیدپرست ہی ہوتے تھے ان نوجوانوں نے جب دیکھا کہ توحید پرستوں پر کس طرح سختیاں کرکے انھیں شرک و بت پرستی پر مجبور کیا جارہا ہے تو انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مناسب یہی سمجھا کہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوجائیں چنانچہ انہوں نے ایک پہاڑ کی ایک کھلی غار میں روپوش ہوجانے پر اتفاق کرلیا اور اپنے گھر بار چھوڑ کر منتخب کردہ غار میں جا پناہ لی اور یہ طے کیا کہ ہم میں سے باری باری ایک شخص اپنا بھیس بدل کر شہر جایا کرے وہاں سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے اور اپنے متعلق لوگوں کی چہ میگوئیاں بھی سن آئے اور موجودہ صورت حال سے باقی ساتھیوں کو بھی مطلع کرتا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ ہمیں اس معاملہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہماری صحیح رہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما۔