أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا
کیا تو یہ خیال کرتا ہے کہ غارا اور کھوہ والے ہماری نشانیوں میں کچھ اچنبا تھے ؟
[٨] قریش مکہ کے تین تاریخی سوال :۔ اس تمہید کے بعد اب کفار مکہ کے ان سوالوں کے جوابات کا آغاز ہو رہا ہے جو انہوں نے اہل کتاب سے پوچھ کر اور ان کے مشورہ سے آپ سے پوچھے تھے کفار مکہ دراصل یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ سے قرون گذشتہ کے متعلق کچھ ایسے تاریخی سوال کریں جن کا کم از کم مشرکین مکہ اور عام اہل عرب کو کچھ علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس معاملہ میں اہل کتاب کے عالموں سے مدد لی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے ایسے سوال کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ شخص فی الواقع نبی ہے یا نہیں۔ اگر یہ جواب نہ دے سکے تو اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا اور اگر درست جواب دے دے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس واقعی کوئی علم غیب کا ذریعہ موجود ہے۔ گویا ان سوالوں سے دراصل ان کا مقصود آپ کی نبوت کا امتحان تھا چنانچہ اہل کتاب نے جو سوالات قریش مکہ کو بتائے ان میں سرفہرست اصحاب کہف کا قصہ تھا پھر دوسرے نمبر پر قصہ موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام اور تیسرے نمبر پر ذوالقرنین کا قصہ تھا۔ بعض روایات کے مطابق دوسرا سوال قصہ موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام کے بجائے روح کے متعلق تھا جس کا ذکر پہلے سورۃ بنی اسرائیل میں گذر چکا ہے یہ بات اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ ان دونوں سورتوں کے نزول کے درمیان ایک طویل مدت ہے۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورۃ بنی اسرائیل کا نمبر ٥٠ جبکہ اس سورۃ کا نمبر ٦٩ ہے علاوہ ازیں اس سورۃ میں ان ہی تین قصوں کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تین سوالوں کا جواب ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ ایسے امور کی بھی ساتھ ساتھ وضاحت کردی ہے جو انسانی ہدایت کے لیے نہایت ضروری ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے انداز بیان کا خاصہ ہے علاوہ ازیں ان قصوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہت حد تک قریش مکہ کے حالات سے مطابقت رکھتے تھے۔ کہف اور رقیم کے معنی :۔ کہف کسی پہاڑ کی اس کھوہ کو کہتے ہیں جو کھلی اور کشادہ ہو اور اگر تنگ ہو تو اسے غار کہتے ہیں اور رقیم، مرقوم کے معنوں میں ہے یعنی یہ اصحاب کہف یک دم معاشرہ سے غائب ہوگئے اور تلاش بسیار کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکا تو ان سرکاری مفرور مجرموں کے نام اور پتے قلمبند کرلیے گئے جو مدتوں حکومت کے ریکارڈ میں رہے اور بعض لوگوں کے خیال کے مطابق یہ نام اس وقت ریکاڑد کیے گئے تھے جب لوگوں کو ان کا پتہ چل گیا ان کا چرچا عام ہوا اور یہ لوگ دوبارہ اس غار میں داخل ہوگئے تو لوگوں نے ان کے نام اور پتے وغیرہ لکھ کر غار سے باہر کتبہ لگا دیا اور ان کے مختصر حالات بھی درج کردیئے گئے۔ غار والوں کا قصہ چونکہ بعث بعد الموت پر ایک واضح دلیل اور خرق عادت امر تھا لہٰذا اس قصہ کا آغاز ہی اس جملہ سے کیا گیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قصہ اللہ تعالیٰ کی حیران کن نشانیوں میں سے ایک بڑی اہم نشانی تھی؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری نشانیاں اس واقعہ سے بہت زیادہ حیران کن ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور خود ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ جو کچھ پہلے تخلیق کرچکا ہے اس کے مقابلے میں بعث بعدالموت اس کے لیے بہت آسان اور حقیر چیز ہے۔