سورة الإسراء - آیت 107

قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ (اے اہل مکہ) تم قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ بےشک وہ جنہیں قرآن سے پہلے علم دیا گیا ہے ہے (اہل کتاب) جب یہ قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں پر گر کر سجدہ کرتے ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٦] منصف مزاج اہل کتاب کا قرآن اور نبی کی تصدیق کرنا :۔ اے قریش مکہ! تم قرآن کو منزل من اللہ تسلیم کرو یا نہ کرو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سابقہ امتوں میں سے بھی جو لوگ اہل علم اور منصف مزاج ہیں وہ قرآن کے انداز بیان سے ہی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ واقعی کلام الٰہی ہے کیونکہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے طرز بیان سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کی آیات سنتے ہیں تو ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہوجاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کے متعلق تورات و انجیل میں بشارتیں مذکور ہیں اور یہ نبی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اب پورا ہو کے رہا۔