قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا
تو کہہ ہر کوئی اپنے طور طریقے پر کام کرتا ہے سو تیرا رب اسے خوب جانتا ہے جو خوب راہ یافتہ ہے (ف ٢) ۔
[١٠٥] شاکلہ کا مفہوم :۔ شاکلۃ کے معنی طور' طریقہ، ڈھب، ڈھنگ، یعنی ہر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کام کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص صدقہ علانیہ دیتا ہے اور اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور دوسرا صدقہ پوشیدہ طور پر دیتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ نمائش نہ ہو۔ اب دیکھئے نیت دونوں کی بخیر ہے لیکن طریقہ اور انداز فکر الگ الگ ہے۔ یا مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے اور دیکھا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز میں آہستہ آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنا آہستہ کیوں پڑھتے ہو؟ عرض کیا، اس لیے کہ میرا رب بہرا نہیں ہے کہ چلا کر پڑھوں۔ آگے گئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنی بلند آواز سے کیوں پڑ رہے ہو؟ عرض کیا ’’سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تحسین فرمائی۔ اس واقعہ میں عمل ایک ہی ہے نیت بھی دونوں کی بخیر ہے۔ لیکن سوچ کا انداز الگ الگ ہے۔ یہی شاکلۃ کا مفہوم ہے۔ اسی لحاظ سے بعض علماء نے اس لفظ سے مراد ہی ”نیت“ لی ہے۔