وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا
اور کچھ رات قرآن کے ساتھ جاگتا رہ یہ تیرے لئے زائد حکم ہے ، شاید تیرا رب تجھے تعریف کے مقام میں کھڑا کرے ۔
[٩٨] نماز تہجد کی رکعات :۔ تہجد کے لغوی معنی تو صرف رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے ہی کسی حصہ میں بیدار ہونا ہے اور اس سے شرعاً وہ نماز مراد ہے جو رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصہ میں نصف شب کے بعد ادا کی جائے۔ اس نماز کی تعداد رکعات اور وقت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ (بنت حارث) کے ہاں سویا میں تو بچھونے کی چوڑان میں لیٹا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی لمبے رخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام فرمایا۔ اور کم و بیش آدھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے۔ بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ پھر اچھی طرح وضو کرکے نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دایاں کان پکڑ کر مجھے اپنے (پیچھے سے لاکر) دائیں طرف کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھر دو اور پھر دو (کل بارہ رکعات) پھر وتر پڑھا پھر لیٹ رہے تاآنکہ موذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں۔ پھر باہر نکلے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الوضوء باب قراءۃ القرآن نیز کتاب العلم۔ باب السمر بالعلم) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات (تہجد) کی نماز کے متعلق سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو، دو رکعت کرکے پڑھو۔ پھر جب کسی کو صبح ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری نماز کو طاق بنا دے گی' عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ رات کی نماز کے اخیر میں وتر پڑھا کرو۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب الحلق والجلوس فی المسجد) [٩٩] یعنی نماز تہجد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تازیست فرض رہی۔ واقعہ معراج اور پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے نماز تہجد مسلمانوں پر فرض تھی جیسا کہ سورۃ مزمل کے پہلے رکوع میں اس کی وضاحت ہے۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو عام مسلمانوں پر نماز تہجد فرض نہ رہی جیسا کہ سورۃ مزمل کے دوسرے رکوع میں ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ﴾ سے واضح ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نماز اسی آیت کی رو سے فرض ہوئی۔ جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں سورۃ فتح نازل ہوئی اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے یہ خوشخبری دی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں پہلے سے بھی زیادہ قیام فرمانے لگے۔ چنانچہ بروایت بخاری نماز تہجد میں لمبے قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں متورم ہوجاتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًاشَکُوْرًا) یعنی کیا پھر میں اللہ کے اس احسان اور فضل کے عوض اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں' (بخاری، کتاب التہجد۔ باب قیام النبی اللیل حتی ترم قدماہ۔۔) امت کے لیے اگرچہ یہ نماز نفل ہے اور امت پر مشقت کی وجہ سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی ہے۔ تاہم اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ گویا ہماری مروجہ شرعی اصطلاح میں سنت مؤکدہ ہے۔ نماز تراویح یا قیام اللیل :۔ واضح رہے کہ نماز تہجد ہی کا دوسرا نام قیام اللیل ہے جیسا کہ بخاری کے عنوان باب سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ اور ماہ رمضان میں قیام اللیل کو نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے جو ماہ رمضان میں عموماً نماز عشاء کے بعد متصل ہی باجماعت نماز ادا کرلی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں یہ نماز تہجد (یا قیام اللیل یا تراویح) صرف دو دن باجماعت پڑھائی تھی۔ پھر تیسرے یا چوتھے دن پھر لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے تو آپ جماعت کے لیے نکلے ہی نہیں اور صبح کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے جماعت کے لیے نہ آنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ (بخاری، کتاب التہجد باب تحریض النبی علی قیام اللیل، نیز کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان) اور یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ گیارہ رکعت ہی ادا کی۔ آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعت پڑھتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عائشہ رضی اللہ عنہا ! آنکھیں (ظاہر میں) سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا“۔ (بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ) اب باجماعت نماز تراویح کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : عبدالرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) مسجد نبوی میں گیا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ کوئی تو اکیلا ہی پڑھ رہا ہے۔ اور کچھ ٹولیاں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہی ہیں۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردوں تو یہ بہتر ہوگا۔ یہ ارادہ کرنے کے بعد آپ نے سیدنا ابی بن کعب کو سب لوگوں کا امام بنا دیا۔ پھر اس کے بعد کسی دوسری رات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ سب لوگ اپنے قاری (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ) کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نعم البدعۃ ھذہ یعنی یہ بدعت تو اچھی ہے نیز لوگوں سے کہا کہ رات کا وہ حصہ جس میں تم سوتے رہتے ہو اس حصے سے افضل ہے جس میں تم نماز پڑھتے ہو اور لوگ شروع رات میں تراویح پڑھ لیتے۔ (قیام اللیل کرلیتے) بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور باجماعت نماز تراویح :۔ اس حدیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے : ١۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی نماز باجماعت کا حکم دیا تو نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں شامل ہوئے نہ آپ کے ساتھی عبدالرحمن بن عبد قاری۔ اسی طرح جب کسی دوسری رات معائنہ کیا تو جماعت دیکھ کر بھی نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے اور نہ آپ کے ساتھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کو نہ ضروری سمجھتے تھے اور نہ بہتر ورنہ آپ خود اس میں شامل ہوجاتے۔ ٢۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قیام اللیل یا نماز تراویح کے لیے رات کا پہلا حصہ افضل نہیں جس میں یہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے بلکہ رات کا آخری حصہ افضل ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود رات کے آخری حصہ میں ہی اکیلے نماز ادا کرتے تھے۔ ٣۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جو یہ فرمایا کہ ’’یہ اچھی بدعت ہے“تو اس سے آپ کی مراد صرف موجودہ شکل تھی۔ یعنی متفرق طور پر پڑھنے سے اکٹھے نماز پڑھنا بہتر ہے۔ ورنہ یہ شرعی اور اصطلاحی معنوں میں بدعت نہیں تھی۔ (جو بہرصورت گمراہی ہوتی ہے) کیونکہ قیام اللیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی۔ علاوہ ازیں کم از کم تین دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت بھی کرائی تھی گویا اس کی دو بنیادیں سنت نبوی سے ثابت تھیں۔ لہٰذا اسے معروف معنوں میں بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور موطا امام مالک کی روایت کے مطابق آپ نے جب نماز تراویح کی جماعت کا حکم دیا تو گیارہ رکعت (وتر سمیت) کا ہی حکم دیا تھا۔ ہمارے ہاں عشاء کے بعد نماز تراویح باجماعت رائج ہے۔ اس میں دو مصلحتیں ضرور ہیں ایک تو حفاظ کرام کو اس بہانے دہرائی کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی سہولت بھی اسی وقت میں ہے ورنہ افضل وقت وہی ہے جس کی سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے وضاحت کردی ہے۔ [١٠٠] مقام محمود کی مختلف توجیہات :۔ مقام محمود سے مراد ایسا مرتبہ ہے کہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و ثنا کرنے لگیں۔ اور اس کی کئی توجیہات ہیں مثلاً ایک یہ کہ ایسا مقام قدر و منزلت اور حمد و ستائش آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زندگی میں عطا فرما دیا تھا، دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو دیکھ کر سب لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے وہ چاہیں گے کہ اللہ کے حضور ان کی کوئی سفارش کرے وہ سیدنا آدم علیہ السلام اور پھر ان کے بعد باری باری سب انبیاء سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کرکے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے تو آپ لوگوں کی یہ التجا قبول کرکے اللہ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٥ کے حواشی) اس توجیہ کے لحاظ سے مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس سے مراد مقام شفاعت ہے‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد وستائش جاری ہوجائے گی۔ نیز ہمیں اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقام محمود پر کھڑا ہونے کی دعا کرتا ہے جس میں ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بلند مرتبہ بزرگ اپنے سے چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کو اپنے حق میں دعا کے لیے کہہ سکتا ہے اور چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کی دعا اپنے سے بلند مرتبہ بزرگ کے حق میں قبول ہوسکتی ہے۔