وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے تجھ سے کہا کہ تیرے رب نے آدمیوں کو گھیر رکھا ہے ، اور وہ دکھلاوا جو ہم نے تجھے دکھلایا تھا اور وہ درکت جس پر قرآن میں لعنت ہوئی ہے ہم نے آدمیوں کیلئے فتنہ ٹھہرایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں ، مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی کو اور کئی درجہ بڑھاتا ہے (ف ١) ۔
[٧٥] اس سے مراد سورۃ بروج کی آیت نمبر ١٩ اور ٢٠ ہیں، یعنی کافر تو آپ کو اور اس دعوت قرآن کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اللہ انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور سورۃ بروج اس سورۃ بنی اسرائیل سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کفار مکہ اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں جتنی بھی کوشش چاہے کرلیں۔ یہ ایک حد سے آگے نہ جاسکیں گے اور ان کی ان کوششوں کے علی الرغم دعوت اسلام پھیل کر رہے گی۔ [٧٦] کافر حسی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے :۔ واقعۂ معراج ایک خرق عادت واقعہ اور معجزہ تھا۔ کفار نے اس معجزہ کا اتنا مذاق اڑایا کہ بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی شک میں پڑگئے۔ پھر کافر جنہوں نے پہلے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے سامنے سے سب پردے ہٹادیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے گئے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ کسی حسی معجزہ کے طالب کفار ایمان لے آتے۔ لیکن وہ ان کے لیے آزمائش بن گیا جس میں یہ ناکام ہوئے اور پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے لگے۔ [٧٧] ملعون درخت اور معراج دونوں سے کفار مکہ کی آزمائش :۔ اسی طرح سورۃ صافات میں ایک اور خرق عادت بات کی اطلاع دی گئی تھی جو یہ تھی کہ ’’جہنم کی تہہ سے تھوہر کا درخت اگے گا۔ یہی اہل جہنم کا کھانا ہوگا جس کے علاوہ انھیں کوئی کھانے کی چیز نہ ملے گی‘‘ (٣٧: ٦٢ تا ٦٦) اس بات پر بھی کافروں نے بہت لے دے کی کہ آگ میں بھلا یہ درخت کیسے اگ سکتا ہے؟ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اپنی عقل کے پیمانے سے اسے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آگ میں درخت یا پودے تو درکنار جاندار بھی پیدا ہوتے اور زندہ رہتے ہیں۔ آگ کا کیڑا سمندری آگ ہی سے پیدا ہوتا اور اسی میں زندہ رہتا ہے۔ پھر کئی پودے ایسے بھی ہیں جن سے آگ نکلتی ہے۔ یہ تو اس دنیا کا حال ہے اور اخروی عالم اور دوزخ کی کیفیت جب ہم پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے اور نہ کوئی چیز تجربہ میں آسکتی ہے تو انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ انکار تو اس صورت میں معقول ہوسکتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی باقی سب قدرتوں کو پوری طرح سمجھ چکا ہو اور بس یہی ایک بات باقی رہ گئی ہو۔ انسان کا علم تو اتنا ناقص ہے کہ وہ اپنے جسم کے اندر کی چیزوں کی کیفیت بھی نہیں سمجھ سکتا تو پھر دوسرے عجائبات سے انکار کرنے یا ان کا مذاق اڑانے کا کیا حق ہے یہ دوسری بات تھی جو ان کفار کی سرکشی بڑھانے کا سبب بن گئی تھی۔ اور یہ درخت ملعون اس لحاظ سے ہے کہ اس میں غذائیت تو نام کو نہیں ہوتی۔ کانٹے بڑے سخت اور تیز ہوتے ہیں جو اہل دوزخ کی اذیت میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔ واقعہ معراج کی طرح، تھوہر کے درخت کی آگ میں پیدائش بھی کافروں کے لیے فتنہ بن گئی تھی۔ اور واقعہ معراج کے فتنہ بننے سے بھی یہ بات از خود ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، روحانی یا کشفی نہیں تھا کیونکہ خواب میں تو ہر انسان ایسے یا اس سے عجیب تر واقعات دیکھ سکتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔