الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو کل جہان کا پروردگار ہے ۔ ف ٢۔
[4] حمد اور شکر میں لغوی فرق :۔ حمد کا معنی تعریف بھی ہوسکتا ہے اور شکر بھی۔ تعریف (حمد) عام ہے اور شکر خاص۔ حمد کا تعلق قابل تعریف کارناموں سے ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان، شمس و قمر اور ستاروں کی حرکت غرض تمام کائنات کا اس قدر مربوط اور منظم نظام بنا دیا ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس پر اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اور شکر کا تعلق ان خاص انعامات سے ہوتا ہے جو کسی خاص ذات سے متعلق ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا انسان کو احسن تقویم پر پیدا کرنا۔ کسی کو صحت اور رزق کی فراوانیوں سے مالا مال کرنا۔ ایسی نعمتوں کے اعتراف کو شکر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کی حمد اور شکر کا مستحق ہوا۔ علاوہ ازیں اگر مخلوق میں سے کوئی شخص کوئی قابل تعریف کارنامہ سر انجام دے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے تو وہ بھی حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہوگی۔ کیونکہ قابل تعریف کام کرنے کی صلاحیت اور توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ گویا ہر طرح کی تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی قرار پاتا ہے۔ [٥] اللہ دراصل الا لٰہ ہے، معبود حقیقی۔ الٰہ کا ہمزہ حذف کر کے اس پر تعریف کا الف لام داخل کر کے اللہ کا لفظ بنا ہے اور یہی توجیہ سب سے بہتر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں ہر طرح کے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے اور کائنات کا خالق، پروردگار اور لا محدود اقتدار و اختیار ہونے کی وجہ سے صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ یعنی وہ تمام صفات جو الٰہ کے مفہوم میں پائی جانی چاہئیں وہ صرف اللہ میں ہی پائی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا دوسرے سب الٰہ باطل اور ناقابل اعتبار ہیں اور اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ رب کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے : (1) کسی چیز کی درجہ بدرجہ تربیت اور خبرگیری رکھتے ہوئے اسے حد کمال تک پہنچانے والا یعنی پروردگار حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (2) کبھی یہ لفظ صرف تربیت (پرورش) کرنے والے مالک کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے سورۃ یوسف میں آتا ہے ﴿أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ﴾(١٢: ٤١) (3) اور کبھی صرف مالک کے معنوں میں جیسے حدیث میں ہے کہ کسی صحابی نے اپنی شہادت کے وقت فرمایا :” فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَةِ“ (کعبہ کے مالک کی قسم! میں کامیاب ہوگیا) [٦] عالمین سے مراد اور اللہ کی تعریف کی وجہ :۔ العالمین : لغوی لحاظ سے عالم ہر وہ چیز ہے جس کا علم حواس خمسہ سے ہوسکتا ہو۔ اس لحاظ سے تمام مخلوقات ایک عالم ہے مگر اس آیت میں عالم سے مراد جنس ہے (عالم غیب، عالم شہادۃ، عالم انس، عالم جن، عالم ملائکہ وغیرہ وغیرہ) بے شمار عالم ہیں۔ پھر زمانہ کے لحاظ سے ہر دور کے لوگ ایک عالم ہیں۔ دور بدلنے پر عالم بھی بدل جاتا ہے۔ اس طرح عالم کی سینکڑوں اور ہزاروں اقسام بن جاتی ہیں اور ان تمام عالموں کی تربیت اور پرورش کرنے والی صرف اللہ ہی کی بلند و برتر ذات ہے۔ اس آیت کے پہلے حصہ میں یہ مذکور ہوا کہ ہر طرح کی تعریف صرف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے اور اس حصہ میں اسکی وجہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی تعریف کا اس لیے مستحق ہے کہ وہ تمام جہانوں کا تربیت کرنے والا ہے۔ نیز یہ آیت اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کے آداب میں سے پہلا ادب ہے۔ حسن طلب کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ جب کسی سے کچھ مانگنا ہو تو اس کی ابتدا اس کے محاسن کے تذکرہ سے کی جاتی ہے۔