سورة البقرة - آیت 191

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جہاں کہیں پاؤ ان کو قتل کرو اور وہاں سے ان کو نکالو ‘ جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکہ سے) اور دین سے بچلانا (یعنی پھرنا یا پھرانا) قتل سے (ف ١) بھی زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو ‘ جب تک کہ اس میں وہ تم سے نہ لڑیں ، پھر اگر وہ تم کو ماریں تو تم ان کو مارو یہی کافروں کا بدلہ ہے ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥٢] فتنہ کاسدباب اورجہاد:۔ اب جہاں بھی موقع پیش آئے تم ان سے لڑائی کرو اور تمہارا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ جیسے انہوں نے اسلام لانے کی وجہ سے تمہیں مکہ سے نکالا تھا۔ تم بھی ان کو ان کے مشرک ہونے اور مشرک رہنے کی وجہ سے مکہ سے نکال کے دم لو، اور یہ ادلے کا بدلہ ہے۔ [٢٥٣] فتنہ کا لفظ عربی زبان میں بڑے وسیع مفہوم اور کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مشرکین مکہ کا بیت اللہ کا متولی ہونا اور بیت اللہ میں بت رکھنا، مسلمانوں کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے، حتیٰ کہ داخل ہونے سے روکنا یہ سب فتنہ کے کام ہیں گویا یہاں فتنہ سے مراد مشرکین مکہ کی ہر وہ حرکت ہے جو انہوں نے دین اسلام کو روکنے کی خاطر کی تھی۔ مثلاً مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد، انہیں دوبارہ کفر پر مجبور کرنا، اگر وہ ہجرت کر جائیں تو ان کا پیچھا نہ چھوڑنا اور بعد میں ان کے اموال و جائیداد کو غصب کرلینا وغیرہ وغیرہ یہی سب باتیں فتنہ میں شامل ہیں۔ ایسی تمام باتوں کے سدباب کے لیے جہاد کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ [٢٥٤] یعنی مکہ جائے امن ضرور ہے لیکن اگر وہ یہاں تم سے لڑائی کریں تو جوابی کارروائی کے طور پر تم بھی کرسکتے ہو۔ ازخود لڑائی کی ابتداء مکہ میں تمہاری طرف سے نہ ہونا چاہیے۔