وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ
اور البتہ تمہارے لئے چار پایوں میں عبرت ہے کہ جو ان کے پیٹ میں ہے اس سے گوبر اور خون کے درمیان سے ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے حلق میں آسانی سے گزرتا ہے ،
[٦٣] دودھ کی پیدائش میں اللہ کی قدرتیں :۔ فرث کا اطلاق صرف اس قسم کی لید یا گوبر پر ہوتا ہے جو پیٹ یا معدہ میں موجود ہو اور جب مقعد کے راستہ گوبر وغیرہ کی صورت میں نکل آئے تو وہ فرث نہیں ہے بلکہ اسے روث کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی کے بعد دوسری بڑی مشروب نعمت دودھ کا ذکر فرمایا۔ دودھ کی پیدائش حیرت انگیز طریقے سے مادہ کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ اسی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے۔ اس میں ایک تو اللہ کی قدرت یہ ہے کہ ایک ہی جنس کے نر ہوں یا مادہ۔ دونوں ایک جیسی خوراک کھاتے ہیں۔ اس خوراک میں سے کام کی چیز جس سے انسان کی زندگی قائم رہتی ہے خون بنتا ہے۔ باقی فضلہ مقعد وغیرہ کے راستہ خارج ہوجاتا ہے لیکن مادہ میں اسی ایک ہی خوراک سے ایک تیسری چیز دودھ بھی بنتا ہے اور وہ صرف مادہ میں ہی بنتا ہے نر میں نہیں بنتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ خون اور گوبر جیسی دو حرام اور گندی چیزوں سے تیسری چیز دودھ جو حاصل ہوتا ہے وہ حلال، نہایت سفید، خوش رنگ، پاکیزہ، خوشگوار اور مزیدار ہوتا ہے پھر یہ محض ایک مشروب ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی تربیت کے لیے مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ یہ صرف پیاس کو نہیں بجھاتا بلکہ بھوک بھی مٹا دیتا ہے۔ اور شیردار جانورکے بچوں کی ابتدائی تربیت اسی دودھ پر ہی ہوتی ہے۔ پھر مویشیوں کے پیٹ میں یہ دودھ اس قدر افراط سے پیدا ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت کے بعد مویشیوں کے مالکوں کو بھی خاصی مقدار میں دودھ حاصل ہوجاتا ہے۔ دودھ پلانے والی مادہ کے جسم میں دودھ تیار کرنے والے اعضاء تو اس کی بلوغت کے وقت نمودار ہوجاتے ہیں جنہیں عرف عام میں پستان کہا جاتا ہے۔ اور دودھ کے بننے کے بارے میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مادہ کے پستان یا دودھ بنانے والی یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے جب مادہ کو حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ پستان موجود ہوتے ہیں مگر وہ کوئی کام نہیں کرتے اور جب حمل قرار پاتا ہے تو یہ مشینری اپنے فطری کام کا آغاز کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ بچہ کی پیدائش تک مادہ کا خون دودھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نوزائیدہ بچہ کو بروقت اللہ تعالیٰ اس کی خوراک مہیا کردیتا ہے اور بچہ کو دودھ پینے کا سلیقہ بھی سکھا دیتا ہے۔ اور یہ کام کچھ اس انداز سے سرانجام پاتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قدرتوں، حکمتوں اور مصلحتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔