أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ
کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ جو شئے اللہ نے پیدا کی ، ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں (ف ١) ۔
[٤٦۔ الف] مثلاً پہلے پہر اگر آپ جنوب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو سایہ آپ کی دائیں جانب ہوگا اور شمال کی طرف منہ کریں تو بائیں جانب پھر جب سورج سر پر آجائے گا تو آپ کا سایہ آپ کے قدموں میں آجائے گا اور سردیوں میں شمال کی جانب سیدھ میں آجائے گا۔ اور پچھلے پہر سمت بالکل برعکس ہوجائے گی۔ اس آیت میں دائیں جانب کے لیے تو اللہ نے واحد کا صیغہ (یمین) استعمال فرمایا اور بائیں جانب کے لیے جمع کا (شمائل واحد شمال) یہ بھی عرب کا محاورہ اور ان کی فصاحت کی ایک قسم ہے۔ اہل عرب جب دو صیغے جمع کے لانا چاہتے ہیں تو ایک کو مفرد کرکے لاتے ہیں۔ قرآن میں اس کی دوسری مثال یہ ہے ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ﴾ [ ٤٧] کائنات کی ہر چیز کا سجدہ کیسے ؟ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اسے چند طبعی قوانین کا پابند بنا دیا ہے۔ ان قوانین کا پابند رہنا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ مخلوق اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز، مجبور محض اور انتہائی عجز کا اظہار کر رہی ہے مثلاً روشنی کے لیے ایک قانون بنادیا کہ وہ اگر ایک ہی قسم کے مادہ سے گزرے تو وہ ہمیشہ خط مستقیم میں چلتی ہے۔ اسی قانون کے مطابق ہر چیز کا سایہ بنتا ہے۔ گھٹتا اور بڑھتا ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سایہ صرف مادی چیز اور ٹھوس قسم کی چیز کا ہوتا ہے اور یہ چیزیں سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ جو اللہ کے ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہیں اور چونکہ مخلوق ہیں لہٰذا کسی نہ کسی وقت تباہ بھی ہوجائیں گی لہٰذا ان میں الوہیت کا شائبہ تک نہیں ہے بلکہ سب اللہ کے حکم میں جکڑی ہوئی اور اس کی عاجز مخلوق ہیں۔