وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور مشرکوں نے کہا کہ اگر خدا چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی کو نہ پوجتے اور ہم بغیر حکم اس کے کسی شئے کو حرام نہ ٹھہراتے ایسے ہی ان سے اگلوں نے کیا تھا سو رسولوں پر صرف کھول کر پیغام پہنچانا ہے (ف ١) ۔
[٣٣] اہل کتاب کا اپنے احبار ورہبان کو رب بنا لینے کا مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو حرام اور حرام کو حلال بنا لینا بھی واضح شرک ہے جیسا کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے﴿ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾(۹:۱۳) کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی۔ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم پہلے عیسائی تھے پھر اسلام لائے تھے۔ جب سورۃ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی تو کہنے لگے : یارسول اللہ ہم اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس چیز کو وہ حلال یا حرام کہہ دیتے تم اسے جوں کا توں تسلیم نہیں کرلیتے تھے؟‘‘ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’یہ بات تو تھی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہی رب بنانا ہوتا ہے“ (ترمذی، ابو اب التفسیر، تفسیر آیت مذکورہ) مشرکین مکہ نے بھی کئی حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال بنا لیا تھا جن کا ذکر سائبہ، بحیرہ، وصیلہ اور حام (٥: ١٠٣) کے حواشی میں گزر چکا ہے۔ مشرکوں کا یہ جواب دراصل ”عذر گناہ بد تر از گناہ“کے مصداق ہوتا ہے۔ تاکہ اس طرح پیغمبروں کو لاجواب کردیں اور کج بحث قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر مشیئت الٰہی کا ہی بہانہ پیش کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو پہلے سورۃ انعام آیت نمبر ١٤٤ کے حاشیہ میں تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ [ ٣٤] جب مشرکوں کو پیغمبر اسلام اور قرآن کی تعلیم کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ اس تعلیم میں رکھا کیا ہے۔ بس پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں کوئی نئی بات تو ہے نہیں۔ گویا انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض یہ تھا کہ یہ پرانے لوگوں کی ہی باتیں پیش کرتا ہے ان کے جواب میں انھیں بتایا جارہا ہے کہ تم جو اپنے مشرکانہ کاموں کے جواز میں دلیل پیش کر رہے ہو، یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ وہی پرانی بات ہے جو گمراہ لوگ ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو ہم ایسے کام کیوں کرتے؟ حالانکہ مشرکوں کی اس دلیل میں بھی اس کا رد موجود ہے۔ جو یہ ہے کہ اگر اللہ کو مشرکوں کا یہ شرک گوارا یا منظور ہوتا تو چاہئے تھا کہ اللہ مشرکوں کے اس کام پر سکوت اختیار فرماتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج کر ان افعال کی پرزور تردید اور مذمت کی ہے۔ پھر وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہ کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہیں۔ [ ٣٥] مشرکوں کا یہ جواب اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ ہمارے رسولوں نے انھیں بروقت مطلع کردیا تھا کہ جو مشرکانہ کام تم کر رہے ہو اللہ ان سے ہرگز راضی نہیں بلکہ وہ اس قدر ناراض ہے کہ تمہارے ان کاموں کی پاداش میں تم پر اپنا عذاب بھیج سکتا ہے۔ اور انہوں نے اپنی اس ذمہ داری میں کبھی کوتاہی نہیں کی تھی۔