سورة النحل - آیت 32

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جن کی جانیں پاکیزہ حالت میں فرشتے نکالتے ہیں کہتے ہیں سلام علیکم ، تم اپنے اعمال کے بدلے میں بہشت میں جاؤ (ف ١) ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] برزخ میں مومن اور کافر سے سلوک کا تقابل :۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو پاکیزہ سیرت ہوتے ہیں جب فرشتے اس قسم کے لوگوں کی روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں تو فرشتے خود انھیں السلام علیکم کہہ کر انھیں پہلے سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔ پھر انھیں جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور ابھی وہ اس دنیا سے پوری طرح رخصت بھی نہیں ہوچکے ہوتے کہ انھیں جنت میں داخل ہونے کو کہہ دیا جاتا ہے اور احادیث میں آیا ہے کہ جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے اور فرشتوں سے سوال و جواب ہوچکتے ہیں تو اس کی قبر میں جنت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جس کی خوشبو سے اس کا دماغ معطر ہوتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ ایسے آرام اور مسرت سے سو جاؤ جیسے ایک نئی نویلی دلہن سوتی ہے۔ (احمد، بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الجنائز، باب مایقال عند من حضرہ الموت۔ الفصل الثالث) اور ابھی وہ اپنی نیند بھی پوری نہیں کرچکا ہوتا کہ بعث بعد الموت کا وقت آجاتا ہے۔ اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ شاید گھنٹہ دو گھنٹے سویا رہا ہوں گا لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ تم یہاں حشر کے دن تک سوئے رہے (٣٠: ٥٦) اور کافر کو قبر یعنی عالم برزخ میں طرح طرح کے عذاب دیئے جاتے ہیں مگر وہ عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ جب انھیں قبر سے اٹھایا جائے گا اور اپنے سامنے میدان محشر کے دہشت ناک مناظر دیکھیں گے تو کہیں گے : ہائے افسوس! ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے اٹھا دیا۔ یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ نے وعدہ کر رکھا تھا اور رسول ٹھیک ہی کہتے تھے۔ (٣٦: ٥٢)