ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ
پھر اللہ انہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا اور کہے گا وہ میرے شریک کہاں ہیں جن کے بارہ میں تم ضد کرتے تھے ، وہ جنہیں علم ملا تھا ، کہیں گے آج رسوائی اور برائی کافروں پر ہے ۔
[٢٧] ایسے راہ حق میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کا دنیا میں تو یہ انجام ہوا اور آخرت میں یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انھیں سب کے سامنے حاضر کرکے پوچھے گا کہ ’’بتاؤ تمہارے وہ بناوٹی شریک کدھر ہیں جنہیں تم نے میرے مقابلہ میں لا کھڑا کیا تھا اور میرے رسولوں سے دنیا میں ہمیشہ جھگڑا کرتے رہے تھے آج وہ کہاں ہیں اور تمہاری مدد کو کیوں نہیں پہنچتے؟‘‘ وہ اس سوال کا کچھ جواب نہ دے سکیں گے اور یہی بات ان کے لیے سب کے سامنے رسوائی کا باعث بن جائے گی۔ پھر انھیں اس شرک کا جو بدلہ دیا جائے گا وہ انتہائی رسوا کن ہوگا۔ [ ٢٨] یعنی مشرک اللہ تعالیٰ کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔ سارے میدان محشر میں ایک سناٹا چھا جائے گا۔ کافروں اور مشرکوں کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی اور وہ دم بخود رہ جائیں گے۔ پھر کچھ دیر بعد اہل علم یعنی انبیاء کرام اور ان کے متبعین انھیں کافروں اور مشرکوں کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ ہم نے تمہیں بتایا نہ تھا کہ قیامت کے دن تمہیں سخت رسوائی اور برے انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔