أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
مردہ ہیں جن میں جی نہیں ، اور انہیں معلوم نہیں ، کہ کب اٹھائے جائیں گے ،
[٢۲] من دون اللہ سے مراد صرف بت نہیں :۔ ان دو آیات سے صاف واضح ہے کہ یہاں ایسے معبودوں کو ذکر نہیں کیا جارہا جو بے جان ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، شجر و حجر اور لکڑی یا پتھر یا مٹی وغیرہ کے بت۔ کیونکہ ان کے لیے بعث بعد الموت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جاندار یا ذوی العقول میں سے فرشتوں، فوت شدہ انبیاء، اولیاء اور صالحین کو خدائی صفات میں شریک بنایا جاتا رہا ہے۔ ان میں فرشتوں پر ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُاَحْیَاءٍ﴾ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں مرتے نہیں۔ باقی صرف اصحاب قبور رہ جاتے ہیں جن پر ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُاَحْیَاءٍ﴾ کا بھی اطلاق ہوسکتا ہے اور ان کے لیے بعث بعد الموت بھی ضروری ہے گویا﴿اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں ان کی وفات کے بعد فریاد رس، غوث، داتا، گنج بخش وغیرہ وغیرہ القاب دے ڈالے گئے۔ اور صفات الوہیت میں انہیں اللہ کا شریک بنا لیا گیا۔ اس قسم کا شرک بھی عرب میں عام پایا جاتا تھا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مرجع خاص و عام بنا دی جاتی۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مسلم کتاب الصلوۃ میں جو حدیث سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں یہود کی تخصیص نہیں۔ نیز انبیاء کی قبروں کے ساتھ صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ” توجہ سے سنو! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ میں تمہیں ایسی باتوں سے منع کرتا ہوں“ نیز سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی درج ذیل حدیث بخاری، احمد، مسلم، نسائی سب کتب حدیث میں موجود ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ سب لوگ (و د، سواع، یغوث، یعوق، نسر) قوم نوح کے اولیاء اللہ تھے۔ جب وہ مرگئے تو لوگ ان کی قبروں پر اعتکاف کرنے لگے۔ پھر ان کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے۔ پھر یہی بت قبائل عرب میں پھیل گئے۔ ان احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں صرف بتوں ہی کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ فوت شدہ بزرگوں کو بھی صفات الوہیت میں شریک بنایا جاتا تھا۔ اور ان آیات میں اسی قسم کے معبودوں کی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارنے کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ مخلوق تھے اور جو مخلوق ہو وہ نہ الٰہ ہوسکتی ہے اور نہ صفات الوہیت میں شریک بن سکتی ہے یعنی ایسے لوگ جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ خود انہیں کب اٹھایا جائے گا، وہ نہ تو تمہاری پکار سن سکتے ہیں اور نہ ہی فریاد رسی کرسکتے ہیں۔