قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
تو کہہ آسمانوں اور زمین کو رب کون ہے تو کہہ ، اللہ ہے تو کہہ پھر کیا تم نے اس کے سوا اور حمایتی پکڑے ہیں ، جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ، تو کہہ کہ اندھا اور بینا برابر ہیں یا تاریکیاں اور روشنیاں برابر ہیں یا انہوں نے اللہ کی شریک ٹھہرائے ہیں ، جنہوں نے اللہ کی پیدائش کی مانند کچھ پیدائش کی ہے اور ان کی نظر میں وہ پیدائش رل مل گئی ہے ؟ تو کہہ اللہ ہی ہر شئے کا خالق ہے ، اور وہی اکیلا غالب ہے (ف ٢)
[٢٤] من دون اللہ کسی چیز کے خالق ومالک نہیں تو ان کا تصرف کہاں سے آگیا ؟:۔ مشرکین مکہ یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کا نیز کائنات کی ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ تخلیق کائنات میں ان کے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ خالق اپنے مخلوق پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے۔ اب ان سے سوال یہ ہے کہ جب تمہارے معبودوں نے کوئی چیز بنائی ہی نہیں تو وہ تصرف کائنات میں شریک کیسے بن گئے اور تمہیں یہ کہاں سے اشتباہ پیدا ہوگیا کہ وہ بھی تصرف کائنات میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی چیز پیدا کرنا تو درکنار وہ تو خودمخلوق اور محتاج ہیں جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں تو وہ تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکیں گے یا تمہاری تکلیف کیا دور کرسکیں گے۔ اب ایک شخص ان دلائل کی روشنی میں چلتا ہے۔ اور صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ کیونکہ وہی خالق اور نفع و نقصان کا مالک ہے اور دوسرا دلائل کی طرف نظر ہی نہیں کرتا اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید پر ہی جم رہا ہے تو کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے؟