وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩
اور جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی یا ناخوشی سے اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ کو سجدہ کرتے ہیں (ف ١)
[٢٢] کائنات کی چیزوں کا اللہ کو سجدہ کرنے کے مطلب :۔ یعنی کائنات کی ہر چیز ان طبعی قوانین کی پابند اور ان کے آگے بے بس اور مجبور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنا دیئے ہیں۔ مثلاً پانی کے لیے یہ قانون ہے کہ وہ نشیب کی طرف بہے اور یہ ناممکن ہے کہ پانی اس قانون کے خلاف بلندی کی طرف بہنا شروع کردے۔ اسی طرح پانی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اپنی سطح ہموار نہ رکھے۔ بس یہی چیز اس کا اللہ کے حضور سجدہ ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ حتیٰ کہ ان قوانین کا انسان بھی پابند اور ان کے آگے مجبور اور بے بس ہے۔ مثلاً اگر وہ چاہے کہ کھانے پینے کے بغیر زندہ رہے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا، یا اگر وہ چاہے کہ موت کو اپنے آپ سے روک دے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا اس کا اختیار صرف ان باتوں میں ہے جن میں اسے قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے اور انہی میں اس کا امتحان ہے۔ [٢٣] یعنی سایوں کے لیے جو قانون مقرر ہے وہ اس کے پابند ہیں اور وہ یہ ہے کہ روشنی ہمیشہ صراط مستقیم میں سفر کرتی ہے اور صبح و شام کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان اوقات میں سائے بہت زیادہ لمبے اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور سایوں کے گھٹنے بڑھنے میں تدریج اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ جس نسبت سے سورج کسی جانب سفر کرتا ہے۔