وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ
اور جب قافلہ نکلا تو ان کے باپ نے کہا ، کہ مجھے یوسف (علیہ السلام) کی بو آتی ہے ۔ اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ بتلاؤ۔
[٩١] سیدنا یعقوب علیہ السلام کا بیٹوں کو یوسف علیہ السلام کے زندہ ہونے کی خبر دینا اور ان کا مذاق اڑانا :۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ادھر سینکڑوں میل دور کنعان میں سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے جدا شدہ بیٹے یوسف علیہ السلام کی بو محسوس کرنے لگے۔ مگر جب ان کے پاس ہی ان کی بستی کے ایک کنوئیں میں پڑے رہے اس وقت اس کا علم نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ غیب کا اتنا ہی علم عطا کرتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب چاہتا ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی زندگی کے تمام تر واقعات میں اللہ کی مشیئت ہی کام کرتی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کے صبر و تحمل اور توکل علی اللہ کا پورا پورا امتحان لیا۔ پھر جب اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد اس کے ثمرہ کا وقت آیا تو ملاقات سے پہلے ہی سیدنا یعقوب علیہ السلام پر وجدانی کیفیت طاری کردی۔ یا وحی سے مطلع کردیا۔ مگر اس کیفیت کا آپ گھر والوں سے کھل کر اظہار کرنے سے بھی ہچکچا رہے تھے اور جب کہی تو اس انداز سے کہی کہ اگر تم لوگ یوں نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں تو بات یہ ہے کہ مجھے آج یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے اور مشکل یہ ہے کہ یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ چنانچہ گھر والوں نے ویسی ہی باتیں کیں جیسا کہ آپ کو اندیشہ تھا۔ کہنے لگے : یوسف کا ذکر تو تم اکثر کرتے ہی رہتے ہوں، اس کی محبت، اس کے زندہ ہونے اور اس سے دوبارہ ملنے کا یقین تو تمہارے دل میں گھر کرچکا ہے یہ تو وہی پرانی باتیں ہیں جو یوسف علیہ السلام کی خوشبو بن کر تمہارے دماغ میں آرہی ہیں۔ یوسف سے والہانہ محبت مختلف تخیلات کی صورت میں تمہارے دل میں گردش کرتی رہتی ہے اور وہی تخیل ہمیں بتانے لگتے ہو۔