اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
میرا یہ کرتا لے جاؤ ، اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو ، کہ وہ بینا ہو کر چلا آئے گا اور اپنا سارا گھرانہ میرے پاس لے آؤ۔ (ف ٢)
[٩٠] بھائیوں کے ہاتھ قمیص بھیجنا اور سارے خاندان کو مصر لانے کی تاکید کرنا :۔ برادران یوسف کی سیدنا یوسف علیہ السلام سے اس طرح حیرت انگیز ملاقات کے نتیجہ میں دو مسئلے از خود حل ہوگئے۔ ایک وہ مہم جس پر باپ نے ان بیٹوں کو بھیجا تھا۔ یعنی وہ جاکر یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کریں اور دوسرے غلہ کی فراہمی کا مسئلہ جس کے لیے برادران یوسف تھوڑا عرصہ پہلے شاہ مصر کے سامنے نہایت عاجزی سے التجا کر رہے تھے۔ اب وہ بس سیدنا یوسف علیہ السلام کے حکم کے منتظر تھے چنانچہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کہا کہ تم اب واپس جاؤ اور اپنے پورے خاندان کو میرے ہاں لے آؤ اور یہ میری قمیص لے جاؤ اسے میرے والد کے چہرے پر پھراؤ گے تو ان شاء اللہ ان کی بینائی بحال ہوجائے گی۔ بینائی کی واپسی کی وجہ کچھ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس کے فراق میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ اسی کے وصال سے وہ مصیبت دور بھی ہوجاتی اور اس طرح بینائی واپس آنا ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شدید مرض میں مبتلا مریض کے پاس جب کوئی ایسا قریبی رشتہ دار آجاتا ہے جس سے اسے دلی لگاؤ ہو تو مریض خود بخود ہی تندرست ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی کسی سخت صدمہ یا غیر معمولی خوشی کے اثر سے بعض نابینا دفعتًا بینا بن گئے۔ تاہم اگر اس بات کو سیدنا یوسف علیہ السلام کے معجزہ پر محمول کیا جائے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں۔