وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں ( یوسف) اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا ، بیشک نفس تو برائی پر ابھارتا ہے مگر جب میرا رب رحم کرے ، بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے ۔
[٥٢] سیدنا یوسف کی کسر نفسی :۔ بھری مجلس میں مجرم کے اعتراف اور اس قضیہ میں آپ کی شاندار جیت کے بعد یہ عین ممکن تھا کہ بشری تقاضوں کے تحت آپ کے نفس میں کچھ پندار اور غرور سراٹھانے لگتا۔ اسی لیے ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی نفس کا تو کام ہی یہ ہے کہ برائی کے کاموں پر انسان کو آمادہ کرتا رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت ہے کہ انسان اس برائی پر عمل کرنے سے بچا رہتا ہے اور جو میں بچا رہا تو اسی لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و فضل سے مجھے بچاتا رہا۔