سورة ھود - آیت 89

وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اے قوم میری مخالفت تمہارے حق میں اس کا باعث نہ ہو کہ تم پر ویسی مصیبت آئے جیسی قوم نوح (علیہ السلام) یا قوم ہود (علیہ السلام) یا قوم صالح (علیہ السلام) پر آئی تھی ، اور قوم لوط (علیہ السلام) تم سے بہت دور نہیں ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠١] اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اوقات میں شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم میں یہ مکالمات ہوتے رہے یہ کوئی ٹھنڈے ماحول میں نہیں ہو رہے تھے بلکہ آپ کی قوم آپ کی مخالفت میں ہٹ دھرمی پر اتر آئی تھی۔ یعنی ایسی ہٹ دھرمی جس میں انسان مخاطب کی درست بات کا بھی الٹا ہی اثر لینا شروع کردیتا ہے اسی لیے آپ نے انھیں فرمایا کہ میری مخالفت میں مشتعل ہو کر اور چڑ کر کہیں پہلے سے بھی زیادہ شرک اور کاروباری بددیانتیوں میں مستغرق نہ ہوجانا حتیٰ کہ تم اس حالت کو پہنچ جاؤ کہ تم اس عذاب الٰہی کے مستحق قرار دیئے جاؤ جو تمہاری پیشرو قوموں پر آچکا ہے جن میں سے قوم لوط علیہ السلام کا تباہ شدہ خطہ تو تم سے کچھ دور بھی نہیں اور اسے کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہو اور پھر زمانی لحاظ سے بھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور تمہارے بڑے بزرگ تمہیں اس قوم کے حالات سنا بھی سکتے ہیں۔