الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
الر ، یہ کتاب جس کے دلائل (آیات) مضبوط ہیں ‘ پھر تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں حکمت والے خبردار کی طرف سے ہے (ف ٢) ۔
[١] محکم آیات کا مفہوم :۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکم ہیں اور بعض دوسری متشابہ۔ لغوی لحاظ سے تو محکم ہر اس چیز کو کہا جاسکتا ہے جسے حکمت، دانائی اور تجربہ سے اس کو ساخت میں مضبوط بنادیا گیا ہو جیسے ارشاد باری ہے ﴿ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ﴾(۵۲:۲۲) اور جب محکم کے مقابلے میں متشابہ کا لفظ آئے تو محکم کا معنی ایسی آیات ہیں جن میں کوئی لفظی یا معنوی اشتباہ نہ ہو بالفاظ دیگر اس کے معنی بالکل واضح ہوں جن کی کوئی اور تاویل نہ ہوسکتی ہو یعنی قرآن کی آیات محکم ہیں اور ان کی حکمت اور تفصیل بعض دوسرے مقامات پر دوسری آیات میں بیان کردی گئی ہے مثلاً لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام آسمانی شریعتوں میں مذکور ہے اور قرآن کریم میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر مختلف اوقات میں اس کی تفصیلات نازل ہوتی رہی ہیں لیکن وہ سب اس حقیقت کو مزید مستحکم و مضبوط بناتی چلی جاتی ہیں اور ان میں کہیں بھی اختلاف یا تضاد واقع نہیں ہوتا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی کسی حکیم اور خبیر ہستی سے نازل شدہ ہے۔ بعض مفسرین آیات کو محکم بنانے سے مراد یہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات ایسی ہیں جن میں عقل سلیم اگر غور و فکر کرے تو کوئی خرابی اور نقص معلوم نہیں ہوتا اور وہ ہر معیار پر پوری اترتی ہیں وہ ماضی کے حالات سے متعلق ہوں یا آئندہ کے متعلق پیشین گوئیاں ہوں اور وہ احکام سے متعلق ہوں جو تہذیب اخلاق سے لے کر سیاست ملکی تک نیز عالم آخرت میں سعادت عظمیٰ تک پھیلے ہوئے ہوں اور زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اثبات توحید کے دلائل ہوں اور ان میں سے جن احکام کی اس دنیا میں تجربہ کی کسوٹی پر جانچ کی جاسکتی ہے وہ سچ اور درست ہی ثابت ہوتے ہیں ایسے اخبار اور ایسے احکام بھی قرآن میں جابجا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً مذکور ہوئے ہیں اور ایسی تمام آیات میں کسی نقص، خرابی یا اختلاف کا نہ ہونا ہی اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کسی حکیم و خبیر ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔