وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
اور جب ہم لوگوں کو بعد تکلیف کے جو انہیں پہنچی ہو کچھ رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو فورا ہی وہ ہماری نشانیوں میں حیلہ نکالتے ہیں تو کہہ اللہ تدبیر میں سب سے تیز رو ہے ‘ ہمارے رسول تمہارے مکر لکھتے ہیں ۔
[٣٣] اس آیت میں اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ میں ذکر آیا ہے۔ یہ قحط مکہ پر مسلسل سات سال تک مسلط رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی اب سوال یہ ہے کہ اس قحط میں اور اس کے دور ہونے میں تمہارے لیے کوئی نشانی نہیں کہ تم اب کسی اور معجزہ کا مطالبہ کرنے لگے ہو اس قحط کے دوران تم نے دیکھ لیا کہ باوجود تمہاری فریادوں کے تمہارے معبود تمہاری اس مصیبت کو تم سے دور نہ کرسکے پھر جب اللہ نے تمہاری مصیبت دور کردی تو پھر تم اپنے وعدوں سے فرار کی راہ سوچنے لگے اور ایسے مکر اور بہانے بنانے شروع کردیے جس سے انہیں اپنے قدیم شرک پر جمے رہنے کے لیے تائید حاصل ہو اور توحید کے اقرار سے بچ سکو جو کچھ بھی چالیں تم چل رہے ہو اس کا وبال تمہیں پر پڑے گا اور تمہاری ان سب چالوں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔